پاک بھارت کشیدگی، پارلیمانی راہنماؤں کا اجلاس طلب

Parliament

Parliament

اسلام آباد (جیوڈیسک) پارلیمانی جماعتوں کے راہنماؤں کی ملاقات اور مشاورت ایک ایسے وقت ہونے جا رہی ہے جب آئندہ بدھ کو پارلیمان کا مشترکہ اجلاس منعقد ہو رہا ہے اور اس میں بھی بھارت کے ساتھ کشیدگی کے معاملات پر بحث کی جائے گی۔

بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدہ تعلقات اور کشمیر کی صورتحال پر پارلیمانی جماعتوں کا نقطہ نظر جاننے اور حکومت کا موقف پیش کرنے کے لیے وزیراعظم نواز شریف نے پیر کو اہم اجلاس طلب کیا ہے۔

اجلاس میں شرکت کے لیے تمام پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان کو دعوت دی گئی ہے اور حزب مخالف کی دونوں بڑی جماعتوں نے راہنماؤں کے اس میں شریک ہونے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت یہ کہہ چکی ہے کہ بھارت کی طرف سے کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں اور اس متنازع علاقے کو تقسیم کرنے والی عارضی حد بندی “لائن آف کنٹرول” پر اشتعال انگیزی کو عالمی برادری کے سامنے اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ کسی بھی جارحیت کی صورت میں بھر پور جواب بھی دیا جائے گا۔

حکومت اور وزیراعظم نواز شریف کی سب سے بڑی ناقد جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر راہنما اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ حکومت سے اختلافات کے باوجود ملکی معاملات کے تناظر میں وہ اس جلاس میں ضرور شریک ہوں گے۔

“اپنی ذات سے بالا تر ہوکر، اپنا موقف پیش کریں گے تجاویز میرے ذہن ہیں ایک خاکہ میرے ذہن میں ہے تاریخ میرے ذہن میں ہے حال کی صورتحال میں جانتا ہوں اور ہندوستان کے کچھ عزائم جو مستقبل کے ہیں مجھے تھوڑا تھوڑا اس کا بھی اندازہ ہے اس پر کل بات ہوگی بڑی واضح بات ہوگی۔”

پارلیمانی جماعتوں کے راہنماؤں کی ملاقات اور مشاورت ایک ایسے وقت ہونے جا رہی ہے جب آئندہ بدھ کو پارلیمان کا مشترکہ اجلاس منعقد ہو رہا ہے اور اس میں بھی بھارت کے ساتھ کشیدگی کے معاملات پر بحث کی جائے گی۔

سیاسی امور کے تجزیہ کار پروفیسر خادم حسین کہتے ہیں کہ سیاسی نظام حکومت میں یہ بہت ضروری ہے کہ پالیسیوں اور ملکی معاملات پر پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے اور اس کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ تمام سیاسی راہنماؤں کو مشاورت کے عمل میں شامل رکھا جائے۔

“یہ بہت اہم ہوگا ابھی تک مسلم لیگ ن کی حکومت نے ایسا اقدام نہیں کیا لیکن دیر آئد درست آئد۔ جب تک پارلیمنٹ کے نمائندوں کو کسی پالیسی پر اعتماد میں نہیں لیا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پورے ملک کو پوری آبادی کو جو نمائندگی حاصل ہے اس کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔”

دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان کشیدگی ان دنوں انتہائی درجے پر ہے اور دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف بین الاقوامی سطح پر اپنا موقف اور بیانات پیش کر رہے ہیں۔

اسی دوران پاکستان کے قریبی اتحادی ملک چین نے اقوام متحدہ میں بھارت کی جانب سے کالعدم شدت پسند تنظیم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کی درخواست کو ایک بار پھر ویٹو کرتے ہوئے اس عمل کو چھ ماہ تک موخر کر دیا ہے۔

چین نے اس سے قبل رواں سال اپریل میں اس درخواست پر تکنیکی اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ اس پر فی الوقت عملدرآمد نہیں ہو سکتا۔

بھارت اپنے ہاں دہشت گردی کے اکثر واقعات کا الزام پاکستان میں موجود اس کالعدم تنظیم پر عائد کرتا ہے۔ لیکن پاکستان کا موقف رہا ہے کہ اگر بھارت اس ضمن میں قابل عمل شواہد فراہم کرے تو وہ دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی کو تیار ہے۔