سب ایک پیج پر ہیں

Government and Army Meeting

Government and Army Meeting

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ
یہ ملک پاکستان سب پاکستانیوں کا ہے ہم سب ایک پیج پر ہیں ۔یہ نادانوں یا ذاتی مفادات رکھنے والوں کی بحث ہے جو پورے ملک میں شروع کی ہوئی ہے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر نہیں ہیں۔ کیا ہم اس لایعنی بحث میں پڑھ کر نادانی کا مظاہرہ کر رہے ہیں یاذاتی مفادات کے ساتھ ساتھ اپنے دشمنوں کے عزائم پورے کر رہے ہیں؟ارے بھائی ہر ملک کا سربراہ بیرونی دوروں پر جاتا ہے ایسے ہی ہمارے وزیر اعظم صاحب بھی امریکا کے دورے پر گئے تھے۔

مسلح افواج کا سربراہ بھی غیر ملکی دورے پر جاتا رہتا ہے اسی طرح ہمارے سپہ سالار بھی امریکا کے دورے پرگئے تھے اب یہ دورہ مکمل کے برازیل کے دورے پر ہیں۔ اس میں کون سی انہونی بات ہے جس کے پیچھے سارا میڈیا پڑا ہوا ہے کیا گھر کی کمزوری ( اگر کوئی ہے)کو دنیا میں نشر کر کے جگ ہنسائی کا سامان پیدا کرنا ہے۔ ہمارے ملک میں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے اس لیے کچھ لوگ اس سے فائدہ اُٹھا کر اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد یںعلیحدہ بنا کر اپنا نام میڈیا میں زندہ رکھنے کی خواہش کو پوری کرتے ہیں۔

ملک کا الیکٹرونک میڈیا بھی اس سے فاہدہ اُٹھا کر ایک دوسرے سے سبقت لینے کی مہم کا شکارہیں تاکہ اُن کے نجی ٹی وی کی ریٹنگ بڑھے۔کچھ اینکر اپنے خاص ذرائع کی مشہوری کے لیے بھی زور لگاتے ہیں تاکہ دیکھنے والے کہیں کہ کمال ہے صاحب ان کے ہاتھ کتنے لمبے ہیں دیکھوں کیسے خبر نکالتے ہیں۔صاحبو!جونادانی کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں اُن کو اپنے رویے پر نئے سرے سے غور کر کے اس نازک مسئلے پر پبلک میں بحث کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور بہت سے موضوع ہیں وہ اُن پر بے شک کفتگو کریں اپنے دل کی بھڑاس نکال لیا کریں۔ جن کے ذاتی مفادات ہیں اور وہ دانستہ دشمن کے عزائم کی تکمیل کے لیے ایسا کر رہے ہیں تو ان کا توڑ محب وطن حلقوں یعنی، الیکٹرونک ،پرنٹ میڈیا،کالم نگار اور تجزیہ کاروں کو کرنا چاہیے اور ان کو پاکستانی قوم کے سامنے بے نقاب کرنا چاہیے۔

Electronic Media

Electronic Media

یاد رکھیں ہمارا ملک بہت ہی مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔کچھ ہماری اپنی غلطیوں کی وجہ سے اور بہت کچھ ہمارے دشمنوں امریکا،بھارت اور اسرائیل کی وجہ ہے جو ایک گریٹ گیم کے تحت پاکستان کا گہرائو کئے ہوئے ہیں اور اسے ختم کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں اور کبھی اس کی تقسیم کے نقشے جاری کرتے ہیں۔پہلی بات کہ امریکا ایک سپر پاور ہے اور ساتھ ساتھ وہ عیسائی دنیا کا سربراہ بھی ہے جس عیسائی دنیا سے تقریباً چودہ سو صدیاں قبل مسلمانوں نے موجودہ مسلم علاقعے فتح کئے تھے ۔پھر مسلمانوں کی کمزوریوں کی وجہ سے سولویں صدی میں عیسائیوں نے مسلمان ملکوں پر واپس مختلف طریقوں سے قبضے کئے۔ اُن کے نظام زندگی کو تبدیل کیا۔

جب دنیا میں آزادی کی تحریکیں چلیں اور مسلمانوںنے سخت جد وجہد کے بعد آزادی حاصل کی تومسلمانوںکو موجودہ چھوٹے چھوٹے راجوڑوں میں تقسیم کیا اب اس کی مزید تقسیم کے منصوبے بنا رہے ہیں اور وہ ہمیں کب برداشت کرسکتے ہیں خاص کر پاکستان ایک اسلامی دنیا کا ایک بہادر ملک ایٹمی وقت بن کر بھی رہے۔ اس سلسلے میںامریکا کی سازشوں سے تمام محبِ وطن لوگ واقف ہیں۔ دوسری بات کہ مشرقی سرحد پر ہمارا ازلی دشمن بھارت ہے جس پر مسلمانوں نے ایک ہزار حکومت کی تھی اُس کا کہنا کہ اب وہ مسلمانوں پر حکومت کرنے کا حق رکھتا ہے اسی وجہ سے اُس نے برصغیر کی تقسیم میں روڑے اٹکائے تھے اور ابھی تک وہ پاکستان کے وجود کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔

خصوصاً کہ اس وقت بھارت کا وزیر اعظم ایک دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کا بنیادی ممبر ہے۔ یہ دہشت گرد تنظیم بنی ہی مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے ہے یا مسلمانوں کو واپس شدھی کر کے ہندو بننے پر مجبور کرنے کے لیے ہے۔اسی لیے بھارت میں گھر واپسی اسکیم شروع کی ہوئی ہے۔مودی اسی دہشت گرد تنظیم کا بنیادی رکن ہے ۔اس کوکامیاب بھی اس وعدے پرکیا گیا تھا کہ وہ منتخب ہو کر بھارت کو متعصب ہندو ریاست بنائے گا۔اس نے دہشت گردی کر کے گجرات میں ڈھائی ہزار مسلمانوںکو شہید کیا تھا اور اب جو مسلمانوں کے خلاف مہم بھارت میں جاری ہے وہ اس کا تسلسل ہے۔ ان ہی حالات کو مدر نظر رکھتے ہوئے قائدِ محترم کی جادوانی شخصیت تھی کہ اُس نے انگریزوں اور تنگ نظر ہندوئوں کو بیک وقت شکست سے دوچار کر کے مروجہ جمہوری طریقے سے پاکستان حاصل کیا تھا جو اب ایک ایٹمی قوت بھی ہے۔

تیسری طرف اسرائیل ہے جس کو ہمارے رب نے چودہ سوسال پہلے دھتکار دیا ہے۔قرآن میں جا بجا اس کی نافرمانیوں کی داستان پڑھی جا سکتی ہے۔کیا وہ دنیا کے نقشے پر ایک اسلام کے نام سے بننے والی ایٹمی حکومتِ پاکستان کو برداشت کر سکتا ہے نہیں بل لکل نہیں! یہ سب کچھ محب وطن پاکستانی جانتے ہیں۔ ہم بھی اسی تجزیے کی بنیا دپر اپنے کالموں میں گریٹ گیم سے پاکستانیوں کو بر وقت خبردار اور ہوشیارکرتے رہتے ہیں اوراس گریٹ گیم کے مقامی کارندوں سے بھی آگاہ کرتے رہتے ہیں جنہوں نے پورے ملک میں اور خاص کر کراچی جو ٧٠ فی صد کمائی کر دیتا ہے میں دہشت گردی، بھتہ خوری، اغواہ برائے تعاون، اہدافی قتل(ٹارگٹ کلنگ) ٹھپہ مافیا اور کرپشن کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ہماری مغربی سرحد افغانستان میںبھارت کی حمایت سے قائم ایک امریکی پٹھو غنی حکومت ہے۔

ضرب عضب کی وجہ سے پاکستان دشمن پاکستانی طالبان اوراُن کا سربراہ مولوی فضل اللہ اپنے دہشت گردوں کے ساتھ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔وہاں سے امریکی اشیر آباد سے پاکستان مخالف میں دہشت گرد کاروائیاں کرتے ہیں جس میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول اور بڈھ بیر ہوائی اڈھے پر حملہ شامل ہے۔ قارئین! ان سب باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم دست بدست ہو کر محبِ وطن نجی ٹی وی مالکان، اخبارات،اینکر پرسن، کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں سے درخواست کرتے ہیں کہ کسی بھی ایسی بحث کو ابلاغ نہ کریں جس سے دشمن کے ہاتھ مضبوط ہوں۔امریکا تو پاکستان میں سنسانی پھیلانے پہلے ہمارے آئی ایس آئی کے سربراہ سے، پھر جمہوری وزیر اعظم سے اور آخر میں سپہ سار سے مزاکرات کرے گا تاکہ ہمارے اداروں کو تقسیم کرے اور اپنے ڈو مور کا مطالبہ پورا کرے۔

Pakistan

Pakistan

ملکی حالات پر نظر رکھنے والے حلقوں کی متفقہ رائے ہے پاکستان کے آئین کے مطابق ملک کے ہر ادارے کو اپنی حد میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ پاکستان کے مخصوص حالات کی وجہ سے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئی ایس پی آر کے تبصرے کو محمول کی بھی بات سمجھ کر قبول کرنا چاہیے تھا۔جواب در جواب کی گردان نہیں شروع کرنی چاہیے تھی۔اللہ بھلا کرے جناب چوہدری نثار صاحب کہ ا نہوں نے بیان جاری کیا اور کہا کہ سپہ سالارجمہوری حکومت کو اعتماد میں لے کر بیرونی دورے ترتیب دیتے ہیں۔اگر کچھ چھوٹی موٹی بات ہو بھی تو یہ فطرتی امر ہے۔ اس کے علاوہ سینیٹ کی دفاعی کمیٹی موجود ہے آئین میں طریقہ موجود ہیں آپ ا س میں سپہ سالار کے دورے پر بریفنگ بھی لی جا سکتی ہے۔

سب تو پاکستانیوں کی خواہش ہے کہ جو مشترکا تحقیقی کمیٹیاں(جائنٹ انوسٹٹیگیشن ٹیمیں) بنی تھیں ان کی سفارشات پر حکومت کو عمل کرنا چاہیے۔حکومت کے سارے اداروں میں بہتر نتائج کے لیے گوڈ گورنس ہونے چاہیے تاکہ بہتر نتائج قوم کے سامنے آئیں اور ملک سے جاری دہشت گردی ختم ہو۔ یہی بات چیف جسٹس صاحب نے بھی اپنے سینیٹ کے خطاب کے دوران کہی تھی۔

دہشت گردی کے کنٹرول کے لیے بیس نکاتی ایجنڈے پر عمل درآمدکے لیے جو ایپکس کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں اُن کا فالو اپ صحیح طریقے سے ہونا چاہیے۔ہم سب کو مل کر جمہوری حکومت جو عوام کے ووٹوں سے آئین کے مطابق قائم ہوئی ہے کو مضبوظ کرنا چاہیے۔ اپنی فوج جو آئین کے مطابق پاکستان کے بیرونی اوراندرونی دشمنوں کے خلاف نبرد آزما ہے کی پشت بانی کرنی چاہیے۔ہماری فوجی نوجوان دہشت گردوں سے ہماری حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں اُن کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ہماری فوج ہماری قوم کی آنکھ کا تارہ ہے۔دشمن ہزار کوششیں کرے ہم سب ایک پیج پر ہیں اور ان شاء اللہ رہیں گے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ
کالمسٹ کونسل آف پاکستان اسلام آباد(سی سی پی)