پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنس کی رپورٹ اور ہمارے ڈاکٹرز

Doctor Check Patient

Doctor Check Patient

تحریر : ساحل منیر
سماجی خدمات کے حوالے سے میڈیکل کا شعبہ بلاشبہ پوری دنیا میں نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس مقدس شعبے سے وابستہ افرادکو معاشرے کے مسیحا و محسن سمجھا جاتا ہے۔مہذب دنیا اس خدمت کو عبادت قرار دیتی ہے۔مگر ہمارے ملک میں اس شعبہ کو خدمت سے زیادہ مالی منفعت کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔اخلاقی پستی اور انسانی بے توقیری کے اس دیمک زدہ سماج میں جہاں سیاست دان، بیورو کریٹ اور دیگر سٹیک ہولڈر دن رات غریبوں کی قبروں پر محل تعمیر کر رہے ہیں وہاں ڈاکٹرز کی اکثریت بھی مسیحائی کو کاروبار بنائے ہوئے ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں غریب و لاچار مریضوں کا کئی پرسانِ حال نہ ہے اور پرائیویٹ علاج معالجے کے مہنگے اخراجات ان کی استطاعت سے باہر ہیں۔

کتنے ہی بے سہاراا و ربے وسیلہ لوگ آئے روز دوا نہ ملنے کی وجہ سے رزقِ خاک ہوجاتے ہیں مگر کسی کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی ۔ سرکاری ہسپتالوں میں لاکھوں روپے تنخواہ پر تعینات ڈاکٹرزمفادِ عامہ کے ان اداروں میں مفت طبی سہولیات مہیا کرنے کی بجائے اپنے پرائیویٹ کلینکس اور ہاسپٹلز میں اپنے من پسند نرخوں پر بازارِ مسیحائی سجائے ہوئے ہیں۔

احساسِ ذمہ داری اور فرض شناسی کا معیار صرف اور صرف پیسہ بن گیا ہے۔جس کے پاس جتنا زیادہ پیسہ ہے اس کا اتنا ہی معیاری علاج ہو سکتا ہے جبکہ غریبوں کا کوئی آسرا نہ ہے۔بھلا ہو اس پیشے سے وابستہ ان مٹھی بھر لوگوں کا جن کی انسانیت ابھی زندہ ہے اور کسی نہ کسی حد تک پاسِ مسیحائی کئے ہوئے ہیں۔ وگرنہ وطنِ عزیز میں تو اِس شعبے کی زبوں حالی ایک تازہ ترین رپورٹ میں یوں بیان کی گئی ہے کہ پاکستانی ڈاکٹروں کا لکھا ہوا کوئی نسخہ بھی بین الاقوامی طبی معیار کے تقاضے پورے نہیں کرتاہے۔

Medicine

Medicine

ڈاکٹرز مہنگی اور ضرورت سے زیادہ ادویات تجویز کرتے ہیں۔پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنس کی رپورٹ کے مطابق طبی قواعد کے برعکس جنرل پریکٹیشنرڈاکٹر89فیصد نسخوں پر اپنا نام نہیں لکھتے۔78فیصد نسخوں پر مرض کی کوئی تشخیص نہیں لکھی جاتی۔جبکہ58فیصد نسخے اتنے بد خط ہوتے ہیں کہ انہیں پڑھنے میں مشکل پیش آتی ہے۔علاوہ ازیں رپورٹ میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ 63فیصد نسخوں پر دوا کی مقدار جبکہ 55فیصد پر دوا لینے کا دورانیہ درج نہیں کیا جاتا۔

اِس رپورٹ میں پیش کئے گئے اعداد و شمار سے جزوی اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اسے کُلی طور پر ہرگز رد نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی پاکستانی ڈاکٹرز کو ان بے ضابطگیوں سے بری الذمہ قرار دیا جا سکتا ہے۔یہ رپورٹ اس پیشے کی مجموعی بے توقیری کا منہ بولتا ثبوت اور پاکستانی سماج کے لئے لمحہء فکریہ ہے۔۔۔۔۔۔۔!

Sahil Munir

Sahil Munir

تحریر : ساحل منیر