کشمیر کی وحدت کا خواب

Kashmir

Kashmir

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
خلافت راشدہ عمر فاروق کے دور میں جہاں ایران اور افریقہ فتح ہوئے وہاںخلیفہ سوم عثمان غنی کے دور میں ریاست مدینہ کی سرحدیں روم سے سپین تک جا پہنچی۔ مگر بدقسمتی سے جس ریاست مدینہ میں کبھی سورج غروب نہ ہوا کرتا تھا خلیفہ چہارم حضرت علی کی خلافت میں یہ طویل و عریض ریاست عملا دو حصوںمیں تقسیم ہو کر رہ گئی حجاز بغداد بصرہ حضرت علی کی عملدرآمد میں اور شام اور افریقہ حضرت معاویہ کی عملدرآمد میں آئے۔ قارئین آگے چل کر بھی امویوں علویوں فاطمیوں کی آپس کی لڑائیوں میں یہ بات بکھرتی چلی گئی۔ عباسی خلیفوں نے مصر پر قابض فاطمیوں کی بغاوت کے باوجود قیصر روم کے دروازے کھٹکھٹائے ۔ مگر عیسائیوں کے اتحاد اور اپنوں کی غداریوں نے انہیں واپس عراق شام اور حجاز مقدس تک محدود کر دیا حتی کہ سپین کی عظیم ریاست عبدالرحمن کی حکومت کا دھڑن تختہ کر دیا گیا۔

اتحادیوں نے وہاں سے مسلمانوں کا صفایا کر کے ہمارے قبلہ اول پر ہی نہیں ہمار ا آدھا فلسطین چھین لیا اس طرح عظیم ریاست مدینہ بکھر سمٹ کر رہ گئی ۔ آگے چل کر خلافت عثمانیہ کا حشر بھی وہی ہوا ۔ ادھر عربوں نے بغاوت کر دی ادھر اسکا کچھ حصہ یورپ میں شامل کر دیا گیا۔ چھوٹی چھوٹی عرب ریاستیں وجود میں آگئی۔ انگریزوں کی پس پشت حمایت میں درجنوں بادشاہتیں قائم ہو گئیں۔ پھر انگریزوں سے لڑنے جھگڑنے کے لئے نہ نورالدین زنگی ، ایوبی نہ غزنوی پیدا ہوسکے۔ جو اسلامی ریاست کے بکھرے ٹکڑوں کو اگھٹا کرتے پھر مغلوںنے عظیم ہندوستان پر حکومت قائم کی۔ جو کشمیر سے راجکماری ۔ بنگال سے افغانستان تک ایک طویل عرصہ مسلمان حکمران رہے مگر اپنے میر جعفروں ،میر صادقوں ، میر قاسموں کی سازشوں انگریزوں کی یلغار نے بنگال میسور حیدر آباد ہی نہیں سارا ہندوستان مسلمانوں سے چھین لیا۔ اس کی وحدت کو ختم کر کے مسلمانوں ہی سے اپنے خیر خواہ مفاد پرست جاگیر دار وں کو سر کا خطاب دے کر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی ٹھیکیدار بنا کر خود وائسرائے بن کر سونے کی چڑیا ہندوستان کو لوٹنے کھوٹنے لگے۔ اسی طرح اٹھارویں صدی عیسوی میں عظیم کشمیری ریاست کشمیر کو بھی نہ بخشا اسے بھی اونے پونے ڈوگروں کے ہاتھ فروخت کر کے ساتھ مقیم کشمیریوں کو بھی ان کے قبضے میں دے دیا۔

دو سو سال ہندوستان پر انگریزوں نے اور کشمیر پر ڈوگروں نے وہ ستم ڈھائے جس کی تاریخ میں دوسرے استماریوں کی مثال نہیں ملتی آخر کار ہندوستان کو دو حصوں انڈیا پاکستان متحدہ بنگال کو مشرقی مغربی حصوں میں اور کشمیر کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر کے رکھ دیاگیا کشمیر کی جدوجہد سے آزاد علاقے پاکستان کے حصے میں آئے۔ ایک بہت بڑا حصہ جموں لداخ اور وادی کا خوبصورت ترین حصہ پانیوں پانچ دریائوں کا منبع ہندوستان کے قبضے میں دے دیا گیا۔ ادھر موقع سے فائدہ اٹھاتے کشمیر کے ایک حصے پر چین نے ہاتھ مار لیا۔ اس وقت کے ہمارے لیڈروں نے اس پار اس پار متحدہ جدوجہد الحاق پاکستان یا ریاست کی خود مختار حیثیت کی کوشش نہ کی۔ ادھر کے لیڈر انڈیا کے دم چھلے بن کر اقتدار میں آگئے ادھر والوں نے بھی نام نہاد آزاد ریاست کی گدیاں سنبھال لیں۔ گلگت بلتستان کا وسیع و عریض حصہ جو وہاں کے مقامی مجاہدین ان کے سرکردوں نے آزاد کرایا تھا۔ وہ بھی آزار ریاست میں شامل کرنے عملداری میں لانے اعتماد میں لانے کے بجائے 1974ء میں پاکستان کی عملداری میں تحریرا دے دیا گیا۔

قارئین اب ایک کشمیری ریاست عملا چار حصوں میں تقسیم ہو کر رہی ۔ جس کو 1965ء اور 1971ء پھر کارگل پھر سیاچین کی جنگوں میں سند حاصل ہو کر رہ گئی گلگت بلتستان تب سے پاکستان کی عملداری میں گورنر وزیر اعلیٰ کی قیادت میں آگیا۔ آزاد ریاست پر صدر وزیراعظم وزیروں مشیروں کی فوج کے ساتھ براجمان ہوتے گئے۔ مگر بدقسمتی سے ان پر وزیر امور کشمیر اور کشمیر کونسل کے وائسرائے بنا کر مسلط کر دیا گیا۔ کنٹرول لائن پر باڑ ھ بنکر بنوا دیئے گئے۔ 1965ء میں آزاد کرائے گئے اہم علاقے انڈیا کو واپس دے دیئے گئے۔ درجنوں ڈیم بنوا دیئے گئے ۔ اور پھر شملہ میں ادھر تم ادھر ہم معاہدہ ہو گیا۔ کارگل کی چوٹی مجاہدین کے ہاتھوں لے کر کلنٹن اور واچپائی کو تحفے میں دے دی گئی۔ تجارت شروع کر دی گئی اور پھر پاکستان حکمران جماعتوں کو یہاں کا اقتدار سونپ دیا گیا۔ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا اعلان ہو گیا۔ تب سے ہمارے نادان مدبر مفکر اقتدار سے باہر کے سیاست دان چلے ہیں پھر سے کشمیر ی ریاست کی وحدت کو قائم کرنے۔ اگھٹا کر نے صوبے بنانے کی مخالفت میں سڑکوں پر آنے کے اعلانات کرتے اب آپ ہی بتائیں ایسے میں کشمیر کی وحدت کیسے قائم ہو گی۔ نہ مقبوضہ وادی او ر اس پار کے بڑے حصے میں فاروق عبداللہ اور مفتی سعید اور غلام نبی آزاد کی نسل اقتدار چھوڑنے پر تیار ہے نہ آزاد ریاست میں قومی حکومت بنانے اور یک جماعتی اقتدار چھوڑنے کو کوئی تیار نہ ہی گلگت بلتستان کے مہدی ، حفیظ الرحمن کرسی چھوڑ نے کو تیار ۔ ایسے میں کشمیر کی ساری ریاست کیسے آزاد اور خود مختار بن سکے گی۔

آپ کس کس سے قبضہ چھڑائیں گے۔ انڈیا سے چائنہ سے پاکستان سے اور فرض کر لیں اگر سارے قابضین قبضہ اپنے اپنے حصے کا چھوڑ دیں ساری ریاست آزاد ہو جائے کیا اس پار کے کشمیری ہمارے سرداروں چوہدریوں کے اقتدار کو تسلیم کریں گے۔ کیا ہمارے یہاں کے سردار چوہدری راجے عمر فاروق یاسین ملک ، عمر عبداللہ ، مفتی سعید کی اولادوں کے اقتدار کو تسلیم کر لیں گے۔ گلگت کے موجودہ حکمران ہمارے ان میٹرک پاس حکمرانوں کو تسلیم کر لیں گے۔ نہیں نہیں کبھی نہیں عربوں کی طرح ان کی توپوں ہتھیاروں کا رخ دشمنوں کے بجائے ایک دوسرے پر ہو گا۔ اور پھر تاریخ میں ریاست مدینہ ہو یا اموی عباسی خلافتیں یا حصے بخرے ہونے والی عثمانی اور مغلیہ خلافتیں بادشاہتیں پھر کبھی اگھٹی ہو سکتی ہیں نہیں۔ بالکل نہیں ٹوٹی ہوئی ریاستیں چاہے وہ عرب میں ہوں افریقہ میں ہوں ہندوستان میں ہوں یا روس میں ہوں یا یورپ میں کبھی اگھٹی نہیں ہو سکتیں۔ اور پھر ستر سالوں میں ہم انڈیا سے ایک انچ کشمیری زمین حاصل نہ کر سکے اب پھر یہ کیسے ممکن ہے عسکری مدد ہم انکی کرتے نہیں۔ مالی نہ سفارتی ہماری مدد نہ انہیں حاصل ہے پھر کیسی آزادی کیسی کشمیر کی وحدت ہاں مقبوضہ وادی والوں نے دو عشروں میں چھ لاکھ جانوں کی قربانی دی ہے اب ان کی تیسری نسل برسر پیکار ہے۔ وہاں کی آزاد ریاست ہو یا خود مختار ریاست انکا حق ہے وہ اپنا حق لیکر رہیں گے۔ اس کے اقتدار کے بھی مستحق ہیں۔ ہم آپ اپنے زبانی جمع خرچ یہ دعوے یہ نعرے اپنے پاس ہی رکھیں۔ ہمارے بزرگو ں نے اگر قربانی دی ہے۔

جدوجہد کی تھی آج ہم ان کی اولادیں اقتدار اور آزادی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ ہم اپنے حقوق کی جنگ لڑیں گلگت والے اپنے حقوق کی جنگ لڑیں چاہے وہ صوبوں کی صورت میں ملے اگر گلگت صوبہ بن جائے وہاں کے ہمارے بھائیوں کو حقوق ملیں کیا حرج ہے ہمارا آزادکشمیر بھی پاکستان کا حصہ ہے۔ ہمیں بھی اپنا حصہ اور برابر کے حقوق چاہیںہمیں بھی اپنے دریائوں ڈیموں جنگلات کی رائلٹی چاہیے۔ معدنیات اور سیاحت کی آمدن چاہیے۔ تعمیر و ترقی صنعت و حرفت کے ادارے چاہیں اوراپنی آنے والی نسلوں کا محفوظ مستقبل بھی چاہیے۔ صرف خالی اقتدار کے ایوانوں اور فائیو سٹار ہوٹلوں اسلا م آباد کے ریسٹ ہائوسوں میں بیٹھ کر خالی نعروں کی نہیں ۔ کیا فرق پڑتا ہے ہمیں گورنر ڈیل کرے یا وزیر اعلی پاکستان کا دست راس وزیر اعظم ہو یا امور کشمیر کیا فرق پڑتا ہے۔ کشمیر کی وحدت عملا چار حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ اب ان حصوں کا اگھٹا ہونا ایک خواب تو ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں۔ چھوٹے یونٹ بنانا چلانا قائم کرنا بڑھتی ہوئی آبادیوں کی ضرورت ہے۔ اس لئے بھی کہ ہمارے آقا ۖ کا فرمان بھی ہے کہ جب تمہاری آبادیاں بڑھنے لگیں گنجان آباد ہو جائیں تب آگے بڑھ کر نئے شہر بسا لو ۔ نئے یونٹ بنا لو ۔ اسی میں ہماری فلاح بھی ہے او ر بقا بھی حقیقت کا ادراک ہی دانشمندی ہے نہ کہ سبز باغ دیکھنا اور صحرا میں سراب کے پیچھے بھاگنا ہے۔

Haji Zahid Hussain

Haji Zahid Hussain

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
ممبر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ
hajizahid.palandri@gmail.com