محبت مگر یک طرفہ

Pakistanis

Pakistanis

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ مملکت خداداد سعودی عرب کی حمائت میں لکھے گئے کالم اور بے شمار تحریریں مجھے ان پاکستانیوں کی مجبوریوں اور تکلیفیوں سے منی موڑنے پر مجبور کر دیں جو کئی ماہ سے لیبر کیمپوں میں صرف روٹی پر پڑے ہوئے ہیں ہمارے حکمرانوں کو لوٹ مار سے فرصت ہو تو ان کی بات کرے مجھے ابھی ایک دوست نے بتایا ہے کہ بن لادن کرین حادثے ک بعد اور مملکت کے دیگر مسائل کی وجہ سے لوگوں کو قبلہ والد صاحب مرحوم ایک کہانی سنایا کرتے تھے۔کہتے تھے ایک میراثی تھا اس نے بادشاہ کے گھر سے بیٹے کا رشتہ کرنے کی ٹھانی وہاں گیا اور اور تھوڑی ہی دیر میں بڑے دروازے پر پڑا کپڑے جھاڑتے ہوئے ملا لوگوں نے پوچھا سنائو کیا بنا کہنے لگا معاملہ ففٹی ففٹی پر آن پہنچا ہے پوچھا وہ کیسے کہا میں تو مان گیا ہوں بادشاہ نہیں مانتا۔

دنیا کے میلے میں بادشاہ میراثی کا کھیل جاری ہے ایک مان گیا ایک نہیں مانتا۔برابری کی دوستی برابر والوں سے ہی ہوتی ہے ہم نے خود اس دنیا میں ارد گرد دیکھا معاشیات وجہ تعلقات ہے نظر دوڑا لیجئے بچپن کے وہی دوست آپ کے دوست ہوں گے جو آپ کی معاشی حد بندی کے دائیں بائیں ہوں گے۔کل سعودی عرب ہمارا جان سے پیارا دوست تھا کیا اب ہے؟اللہ کرے میں غلط ہوں مگر سچ کچھ اور ہے۔چین سے ہماری ہمالیائی دوستی کے دعوے اپنی جگہ مگر ہماری جغرافیائی حیثیت ہے جو اس کو ہماری بانہوں میں بانہیں ڈالنے پر مجبور کرتی ہے۔میرا آج کا موضوع یہی ہے میری آج کی کتھا اس ملک میں مقیم ہزاروں نہیں لاکھوں پاکستانیوں کے بارے میں ہے۔ویسے ہمیں مان ہے کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں لیکن یہ طاقت کبھی کبھار ہم کہتے ہیں محفوظ ہاتھوں میں ہے۔کون سے ہاتھ گورے یا برائون خاکم بدہن ۔۔۔۔۔۔۔کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔

Pakistan

Pakistan

کئی کئی ماہ کی تنخواہیں نہیں ملیں جب کرین کا حادثہ ہوا تھا تو میں نے لکھا تھا کہ اب بن لادن کے ہزاروں مزدوروں پر قیامے آنے والی ہے۔اس حادثے کے بعد بے شمار لوگ پاکستان واپس آ چکے ہیں بہت سے اس ڈر کی وجہ سے دبکے ہوئے ہیں کہ پاکستان جا کر کیا کریں گے۔ عمران خان نے سچ کہا تھا کہ جو حکومتیں اپنے لوگوں کی عزت نہیں کرتیں اغیار ان کی عزت کیا کریں گے۔ان پاکستانیوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔سعودی حکومت کے خیر خواہ کی حیثیت سے میں سعودی عرب کے حکمرانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ مزدوروں کو ان کے خون پسینے کی کمائی سے محروم نہ کیا جائے ۔آج اسی وادی ء فاراں سے ایک دوست نے لکھا ہے کہ ہم بن لادن کے اسکان کیمپ میں کئی ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں ہمیں اپنے بچوں کو بھیجنے کے لئے خرچہ تک میسر نہیں۔یہ ہو وادی ہے جس کے ایک مطہر باشندے والی ء دو جہاںۖنے کہا تھا کہ مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری دے دی جائے۔ان کیمپوں میں مقید پاکستانیوں کے پسینے خشک ہونے کے بعد چھوٹ رہے ہیں۔مزے کی بات ہے یہ کیمپس غار حرا کے دامن میں واقع ان گنت لوگوں کی تمنائوں کا قتل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

یہ تحریریں اس بات کی گواہ ہیں کہ میں نے ہمیشہ سعودی عرب کے حق میں لکھا کبھی بھی اس ملک کا برا نہیں چاہا جہاں میں نے زندگی کے ٣٠ حسین سال گزارے۔جسے آج بھی عروس البلاد جدہ کی شامیں سر شام بلاتی ہیں وہ ارض حرمین جہاں دل اداس ہوا تو گاڑی نکال کر ایک گھنٹے میں طواف کی برکات سمیٹنے پہنچ گیا آج کس دل سے شکوہ کر رہا ہوں آج کس حالت میں قلم اٹھا رہا ہوں کہ وہ مزدور جن کی تنخواہ ہزار پندرہ سو سے زیادہ نہیں ہے انہیں کیوں نہیں اپنے خزانوں میں سے دے دیتے؟
سعودی عرب کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر دیگر کالموں میں لکھ چکا ہوں ہمیں علم ہے کہ ایک نام نہاد اسلامی ملک ارض حرمین کے دشمنوں کا آلہ ء کار بن کر اس کی پشت میں چھرا گھونپنے کی مکروہ واردات کر رہا ہے۔ہمیں یہ بھی علم ہے کہ دشمنوں کو یہ برداشت نہیں کہ امن و امان کا گہوارہ ملک پیار اور محبت کی فضائوں کا مزہ اڑائے۔اسی لئے کبھی بحرین میں کبھی الاحساء ،قطیف یمن میں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے فتنے اٹھا رہا ہے۔ہم تو اس وقت بھی سعودی عرب کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے جب وہاں ٤٥ لوگوں کی گردنیں اڑیں۔

Saudi Pakistani friendship

Saudi Pakistani friendship

مخالفین نے اسے فقہی لڑائی بنانے کی کوشش کی جس پر ہم نے لکھا کہ ٤٥ میں سے تین مختلف عقیدے کے لوگ تھے باقی سارے سعودی لوگوں کے مسلک والے تھے۔سعودی عرب کی دوستی پاکستانیوں کے ساتھ مدوجزر کا شکار نظر آ رہی ہے۔پچھلے دنوں انہوں ے نریندر مودی کو وہاں کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا تو ہمارے دل پر چوٹ لگی،یہ وہی مودی ہے جس نے گجرات میں مسلمانوں کا قتل کیا اور نہ صرف قتل بلکہ کہا کہ اگر پھر کبھی ایسا موقع آیا تو یہی کچھ کروں گا۔ہمارے پاس کوئی جواب نہ تھا ہم نے تو کبھی سعودی عرب کے دشمنوں کو سینے سے نہیں لگایا۔ہمیں یہ علم ہے کہ دولت سے مالا مال ملک کسی سے بگاڑنا نہیں چاہتا مگر خود بھارت کے مسلمان اس سوال کو اٹھاتے نظر آئے کہ مملکت سعودی عرب کو کیا ہو گیا ہے؟کیا یہ وہی ملک ہے جو شاہ فیصل کی قیادت میں پوری امت مسلمہ کے دکھوں میں شرک ہو جایا کرتا تھا۔یہ سوال ہمارے ذہنوں میں بھی اٹھا ہم سمجھے کہ چلو کوئی مجبوری ہو گی۔پچھلے دنوں ایک ٹاک شو پر یہی سوال ایک عمامے والے نے مجھ سے پوچھا کہ بھارت کے ساتھ دوستی کی پینگیں کیوں بڑھائی جا رہی ہیں ۔اس کا جواب بھی تو ہمارے پاس نہیں تھا۔سعودی عرب کے عوام کے دکھوں میں جتنی پاکستانیوں نے شرکت کی ہے دنیا کا کوئی اور ملک نہیں دکھا سکتا،لیکن پتہ نہیں ہمارے ساتھ ایسا رویہ کیوں اپنایا جا رہا ہے ہم تو ارض حرمین کے تحفظ کو ایمان کا درجہ دیتے ہیں اور ہمیں ریال کا لالچی قرار دیا جاتا ہے۔کیا سعودی عرب بدل گیا ہے؟کیا اب فیصل،خالد فہد اور عبداللہ کے دور کو بھول جانا چاہئے؟ محبت پیار قربانی ایثار one wayکبھی نہیں ہوتیں۔

سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر جدہ قونصلیٹ میں بیٹھے قونصل خانے کے لوگ ان پاکستانیوں کی مدد کو پہنچیں۔میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ کمپنیاں اب پانچ چھ ماہ کی تنخوا نیچے رکھ کر ایک آدھ کی دے رہی ہیں۔اور ھالات بہتر ہونے کی امید ہے۔اللہ کرے اس ملک پر بھی وہ فصل گل اترے جسے اندیشہ ء زوال نہ ہو۔آخر کار وہ پاک سرزمین ہے جہاں سے ہمارے پیارے نبیۖ اس دنیا میں آئے۔
ہمیں جہاں بھوک ننگ افلاس کا سامنا ہے ہم ان لوگوں کے آنے سے مزید بھوکے نہیں ہو جائیں گے۔پاکستان کے ان بیٹوں کی بھوک کے ساتھ شامل ہو کر ان کا مداوا کریں گے۔اللہ تعالی وہ دن نہ لائے کہ بیس لاکھ لوگ پاکستان پلٹیں لیکن ان کی یہ مجبوریاں دیکھی نہیں جاتیں۔بن لادن اور دیگر کمپنیوںکے ان کیمپوں کو نازی کیمپ نہ بنائیں

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
iach786@gmail.com