پاکستان کے لبرلز لندن میں پاکستان کے مستقبل کے نام سے اکٹھے

Conference

Conference

تحریر: میرافسر امان
دی نیوز اخبار کی طرف سے خبر آئی ہے کہ پاکستان کے لبرلز لندن میں ایک کانفرنس بنام” پاکستان کا مسقبل” اکٹھے ہورہے ہیں۔یہ کانفرنس پاکستان کے اسلامی تشخص کی مخالف ایک نام نہاد تنظیم جس کا نام سائوتھ ایشین ٹیررزم مخالف اینڈ حیومن رائٹس) saath ( نے کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے اور امریکا میں مقیم ایک کالمسٹ ڈاکٹر محمد تقی اور امریکا میں ہی مقیم سابق پاکستانی سفیر ،پاکستانی بھگوڑے، حسین حقانی کی مشترکہ مدد کے تحت منعقد ہو رہی ہے۔سب سے پہلی بات کہ ان صاحبان کو اپنے پرانے سیکولر آقا کے ملک میں ہی اکٹھاہونا نصیب ہوا ہے۔

کیا انہیں اسلامی جمہوری پاکستان میں جگہ نہیں مل سکی؟یہاں تک پاکستان کے مستقبل کا تعلق ہے تو اس کے بنانے والے قائد اعظم نے اس کے بننے سے پہلے ہی ”پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا نعرہ دے کر طے کر دیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد سے ہی مٹھی بھر اسلام بیزار لبرلز بیرونی ایجنڈے اور مغربی تعذیب سے شکست خوردہ زہنیت لیے ہوئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو سیکولر بنانے کے لیے اپنی سی کوششیں کرتے رہے ہیں۔

مگر ان کے ناپاک عزائم کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نظریاتی محافظوں کے سامنے اُن کی ایک نہیں چلی اور پاکستان کے اسلامی تشخص اور دو قومی نظریہ کی حفاظت کرنے والوں کی انتھک جدو جہد کی وجہ سے مرحوم ذوالفقار علی بٹھو کے دور میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے اس کا اسلامی آئین منظور کیا تھا جس کو ختم کرنے کے لیے یہ لبرل حضرات کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ لندن میں اکٹھے ہونے والے چند لبرلز کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی تشخص اور دو قومی نظریہ کی حفاظت کرنے اب بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عوام تازہ دم ہیں اور موجود ہیں۔

Pakistan and  America

Pakistan and America

لندن کی اس میٹنگ کے روح رواں جو امریکا میں پاکستان کے سفیر رہے ہیں یہ صاحب سفیر کی حثییت سے مراعات تو پاکستان سے لیتے تھے اور مفادات امریکا کے پورے کرتے تھے۔ یہ صاحب میمو گیٹ کے سرغنہ بھی رہے ہیں۔ پاکستان کے خلاف لکھنے کی شہرت بھی حاصل کی ہے۔اپنی ایک ”کتاب ملا ملٹری اتحاد” میں پاکستان کی فوج کے خلاف زبان درازی کی جس کوپاکستان میں پزیرائی نہ مل سکی۔ ہم نے اس کتاب پر اپنے کالم میں گرفت کی تھی اور ان کے پاکستان کے خلاف ناپاک عزائم کوپاکستان کے عوام کے سامنے اشکار کیا تھا۔

کتاب میں ہزاسرائی کے بعد بھی امریکی اخبارات میں پاکستان اور پاکستان کی فوج کے خلاف امریکا اور مغرب کواُکساتے رہتے ہیں۔جب میمو گیٹ پر عدالت میں مقدمہ چلا تو پیپلز پارٹی کا دور حکومت تھا۔ پہلے تویہ صاحب صدارتی آفس میں چھپے رہے۔ پھر عدالت کو یہ ضمانت دے کر امریکا چلے گئے تھے کہ جب بھی عدالت اعظمیٰ بلائے گی تو یہ حاضر ہو جائیں گے۔ عدالت کی کئی تاریخوں پر سیکورٹی کے بہانے آج تک پاکستان نہیں آئے۔ اس طرح یہ پاکستان کے بھگوڑے ہیں۔ کانفرنس کی دوسری شریک صاحبہ نے بھی پاکستان اور پاکستان کی فوج کے خلاف کتاب لکھ چکی ہیں جس کا نام ہے ”خاکی وردی”۔ اس میں فوج کو ایک تاجر ثابت کرنے کی ناپا ک کوشش کی ہے۔

اگر فوج نے پاکستان میںاپنے ریٹائرڈ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ ادارے قائم کیے ہیں تو کسی غیر فوجی کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ اس کتاب پر بھی ہم نے اپنے ایک کالم میں گرفت کی تھی اور ان کی غلط باتوں کے مقابلے میںعوام کو صحیح معلومات سے آگاہ کیا تھا۔ فوج مخالف ایک مشہور نجی ٹی وی کے ایک پروگرام” جیو جیومینٹری” میں یہ صاحبہ بھی شریک تھی اور عوا م کو یہ کہہ کر گمراہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ روس نے گرم پانیوں تک آنے کے لیے افغانستان پر حملہ نہیں کیا تھا۔ ان کے اس جھوٹ پر ہم نے اپنے کالم ”حقائق یہ ہیں” میں تاریخی حوالے دے کر ثابت کیا تھا کہ افغانستان جیسے غریب ملک میں روس نے کیا کرنا۔

Newspapers

Newspapers

اس نے تو بلوچستان کے راستے گرم پانیوں تک رسائی کے لیے افغانستان پر قبضہ کیا ہے۔یہ مضمون بھی پاکستان کی کئی اخبارات میں چھپا تھا۔اس کانفرنس میں عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر افراسیاب خٹک، بشرا گوہر، کالمسٹ راشد رحمان، ماروی سرمد ،بینا سرور اور دوسرسے لبرلز کالمسٹ اور دانش ور بھی شریک ہو نگے۔ دعوت نامے میں کہا گیا ہے کہ کئی برسوں سے پاکستان کا لبرل ،پروگریسو اور سیکولرویژن فوج اوراسلامی انتہا پسندوں کے دبائو کے اندر ہے۔یہی باتیں حسین حقانی اور ڈاکٹرعائشہ اپنی کتابوں میں لکھ چکے ہیں جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔

کانفرنس کے منتظمین کے مطابق جان کے خطرے کی وجہ سے پاکستان میں مشہور لبلرز سائیڈلائن ہو گئے ہیں یا پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کی بڑی سیاسی پارٹیاں فوج کی اسلامی سیاست کرنے اور انتہاپسندوں کی حمایت کی وجہ سے اپنی حیثیت کو بچانے کی جدوجہد میں لگی ہوئی ہیں۔اس وجہ سے انسانی بنیادی حقوق مرد عورت کے مساوی حقوق اور مذہب کے دخل نے انسانی اقدار پر قدغن لگا دیا ہے۔منتظمین سوچتے ہیں کہ باہر سے تو پاکستان کو سیکولر بنانے کا پریشر تو ہے مگر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے انتہا پسندوں کی مدد جو ضیا دورسے چلی آرہی ہے اس کو ہم اندر سے کم کریں اور لبرلز، پروگریسو اور سیکولرز کو پاکستان میں آگے بڑھنے کی جدوجہد میں شرکت پر آمادہ کرنے کی کوشش کو مزید تیز کریں۔

Pakistan

Pakistan

ہم نے اوپر دی نیوز اخبار میں جاری کردی اس تنظیم کا بیانیہ تحریر کر دیا ہے۔ یہ وہی پرانا مغربی بیانیہ ہے جو اسلام اور پاکستان کی نظریاتی سیاسی کو انتہا پسند ثابت کرنے اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی محافظ فوج کو روگ فوج ثابت کرنے کی بھونڈی کوششیں ہیں۔ اس بیانیہ میں رنگ بھرنے والے پاکستان کے لبرلز سیکولر اور پرگریسو نام نہاد انشوروں، کالمسٹوں اور جن پارٹیوں کو قائد اعظنم نے جمہوری طریقے سے تحریک پاکستان کے وقت شکست دی اب پھر اپنے ناپاک عزائم اور پاکستان کے اسلامی تشخص کے خلاف لندن میں جمع ہو رہے ان کے بیانیہ پر عوام خود ہی فیصلہ کر سکتے ہیں یہ وہی بیانیہ نہیں ہے جو ابھی ابھی نواز حکومت نے اخبارات میں جاری کیا تھا جس میں حکومت کا میڈیا سل پکڑا گیا ہے۔

جس نے دنیا میں پاک فوج کو بدنام کیا ہے۔ پاک فوج نے اس پر گرفت کی۔حکومتی میڈیا نے پلانٹڈ خبر ایک انگریزی اخبار میں جاری کی۔ جس پر پہلی قسط کے طور پرپاکستان کے وزیر اطلاعات کو بھی فارغ کر دیا ہے۔ مذید انکوائری کے لیے اعلی سطحی کمیٹی بنا دی گئی ہے جو تحقیق کر کے باقی مجروموں کو بھی قانون کے کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ صاحبو! پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے مطالبے کہ پاکستان کا مطلب کیا” لا الہ الا اللہ” کی وجہ سے مثل مدینہ ایک ریاست پاکستان کے نام سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ ہے۔ اللہ ہی دشمنوں سے اس کی حفاطت فرمائے گا۔ چاہے دشمنوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔ہمارے نزدیک لندن والی یہ کانفرنس پاک فوج کے خلاف سازش کرنے والے مجرموں کو تحفظ دینے کے لیے بیرونی آقائوں کے کہنے پر منعقد کی جا رہی ہے۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر: میرافسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان