پاکستانی سیاست دانوں کے سرجیکل اسٹرئیکس

Pakistan Politicians

Pakistan Politicians

تحریر : قادر خان
مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے بھارتی حاضر سروس ‘ را ‘ ایجنٹ کل بھوشن یادو کا ذکر اقوام متحدہ کے 71ویں اجلاس میں کیوں نہیں کیا؟۔یا تویہ سوال کرنے والے نہایت سادہ ہیں یا پھر حقیقت جانتے ہوئے بھی خود کو انجان بنائے رکھے ہوئے ہیں ۔ بھارتی حاضر سروس ‘ را ‘ ایجنٹ کی گرفتاری حساس اداروں کی بہت بڑی کامیابی اور پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ہائی پرو فائل کیس ہے۔برہان وانی کا ذکر کرتے ہوئے ، وزیر اعظم کی تقریر لکھنے والے کو کل بھوشن یادو ، یادنہ رہا ہو ، تو یہ بات ممکن نہیں ہے ۔یقینی طور پر وزیر اعظم کی تقریر لکھنے والے ملازمین کو کل بھوشن یاد و ، یاد تھا لیکن دانستہ طور پر ذکر نہیں کیا ۔ پاکستانی مشترکہ پارلیمنٹ اجلاس میںمتنازعہ ہنگامہ آرائی کے بعد قرار دارکشمیر پاس تو کردی گئی کہ پاکستانی حکومت کل بھوشن یادو کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھایا جا ئے ۔لیکن یہاں یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ وزیر اعظم نے دختران ملت کی آسیہ انداربی کا ذکر بھی کیوں نہیں کیا ، جو ہر سال پاکستان کے یوم آزادی پر پاکستان کا جھنڈا لہراتی ہیں۔

قید و بند کی صعوبیتیں ان کے خاندان کی پہچان بن گئی ہیں ، ان کے شوہر 24سال سے صرف پاکستان کے نام پر بھارتی عقوبت خانے میں پاکستان سے محبت کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ڈاکٹر عاشق حسین فاکتو کو1992میں قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں عمر قید کی سز ا ملی ، انھوں نے جیل میں ہی پی ایچ ڈی کی ، اور 125قیدیوں کو گریجویشن کرائی ،لیکن سزا پوری ہونے کے باوجود بھی انھیں رہا نہیں کیا گیا۔آسیہ انداربی اور ان کی 6ماہ کے بیٹے کو 1995میں رہا کردیا تھا ، لیکن ان کے شوہر ابھی تک پابند سلال ہیں۔ پاکستان کے اراکین پارلیمنٹ ، اینکرز پرسز ،صحافی تنظیمیں اور بڑے بڑے نام دختر کشمیر آسیہ انداربی کی قربانیوںمیں ان کے شوہر فاکتو کا ذکر اسی طرح نہیں کرتے ، جس طرح وزیر اعظم پاکستان کل بھوشن یادو کا نہیں کیا۔اپنے نظریات کے لئے طویل عرصے تک جیل میں بند رہنے والوں میں خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا ہیں ، جو مجموعی طور 42سال سے زائد ہندوستان و پاکستان کی جیلوں میں اسیر رہے ، باچا خان کے نظریات چاہیے کسی کیلئے کتنے بھی متنازعہ ہوں ، لیکن ان کی طویل اسیری کا زیادہ عرصہ پاکستان میں گذرا، لیکن باچا خان اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔

جی ایم سید جنھوں نے پاکستان کیلئے جدوجہد کی ، انھوں نے اپنے نظریات کے لئے 30سال کی سزا کاٹی ، ان کے نظریات چاہیے کسی کیلئے کتنے بھی متنازعہ ہوں لیکن وہ بھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے اور دوران اسیری ہی ان کا انتقال ہوگیا۔محمود خان اچکزئی کے والد عبدالصمد خان اچکزئی نیبرطانوی راج کیخلاف متحدہ ہندوستان کی آزادی کیلیے جدوجہد کی اور تقریباََ 25 سال سے زیادہ عرصے تک عبدالصمد کو انگریزوں نے جیل میں رکھا۔ بعد میں پاکستان بننے کے بعد ایوب خان کی مارشل لا کے خلاف احتجاج کرنے پر انہیں جیل بھیجا گیا۔قریب اپنی زندگی میں انہوں نے کُل 35 سال جیل کاٹی، لیکن وہ بھی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے ۔عافیہ صدیقی کو 23 ستمبر، 2010ء میں نیویارک امریکی عدالت نے عافیہ صدیقی کو 86 سال قید کی سزا سنائی۔ جون 2013ء میں امریکی فوجی زنداں فورٹ ورتھ میں عافیہ پر حملہ کیا گیا جس سے وہ دو دن بیہوش رہی۔

Imprisonment

Imprisonment

بالاخر وکیل کی مداخلت پر اسے طبی امداد دی گئی۔گذشتہ 17سال سے امریکہ کی قید میں ہے ۔ لیکن وہ بھی اپنے موقف ڈٹی رہیں ۔لیکن پاکستان کی بیور کریسی اپنے موقف سے ہمیشہ پیچھے ہٹ جاتی ہے۔امریکی جاسوسوں کو پروکوٹول کے ساتھ ریڈ کارپیٹ میں لے جا کر بغیر پاسپورٹ ، سنگین جرم کرنے کے باوجود باعزت رخصت کیا جاتا ہے ، لیکن عافیہ صدیقی جس کے بارے میں حکومت پاکستان کے جھوٹے دلاسے کہ عافیہ صدیقی کو رہا کرا لیا جائے گا آج تک وفا نہیں ہوسکے۔ وزیر اعظم پاکستان نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں دخترپاکستان عافیہ صدیقی کا بھی ذکر نہیں کیا ۔ایک لمبی چوڑی فہرست ہے ، جس میں حریت پسندوں ، کا اگر وہ ذکر کرنے بیٹھتے تو اجلاس اگلے سال تک جاری رہتا ۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ جب بات کشمیر کی ہو رہی ہے تو دخترکشمیر آسیہ انداربی ، ان کے جرت مند شوہر ڈاکٹر عاشق حسین کا اسیری کو کیوں نہیں کیا گیا ۔کل بھوشن یادو کا ذکر تو اس لئے نہیں کیا ، کیونکہ اس کے ساتھ پڑوسی ملک ایران کا نام جڑا تھا۔

پاکستان ، ایران کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا ، اس لئے اس نے ایرانی سرزمین ، پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کے باوجود کل بھوشن یادو کا ذکر نہیں کیا ، کیونکہ پھر وزیراعظم صاحب کو ایران میں موجود اس بھارتی ایجنٹ کا بھی ذکر کرنا پڑتا ، جیسے ابھی تک ایران نے پاکستان کے حوالے نہیں کیا ، حالانکہ ایران اپنے آئین کے برخلاف اپنی سر زمین ، شام ، عراق ، یمن ،افغانستان اور پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے ، وزیر اعظم نے پاکستان کے ہائی پروفائل کیس کل بھوشن یادو کے ساتھ الطاف حسین کا ذکر بھی اقوام متحدہ میں نہ کرکے بھارت کو مزید شرمندگی سے بچا لیا ۔ پاکستان کو کل بھوشن یادو اور الطاف کا ذکر کرنا چاہیے تھا کیونکہ دونوں بھارتی را ایجنٹ ہیں۔کل بھوشن یادو کا ذکر پاکستان کے مشترکہ اجلاس میں کردیا ، لیکن پاکستان کے مشترکہ اجلاس کا جو حال ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے کیا ، اس سے پاکستانیوں کے سر شرم سے جھک گئے۔

ذرائع کے مطابق کشمیر کمیٹی ، جو پارلیمنٹ کی سب سے مہنگی کمیٹی ہے ، ان کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن کا یہ حال ہے کہ انھوں نے تین سال میں ابھی تک کشمیر کے معاملے پر ایک بھی ہنگامی اجلاس نہیں بلایا۔صرف 21پریس ریلیز جاری کیں ۔6کروڑ روپے سالانہ کمیٹی کے اخراجات ہیں ۔21کروڑ روپے سے زائد اخراجات کشمیر کے مسئلے کے نام پر مولانا صاحب جو کہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں خرچ کرچکے ہیں ، موصوف نے عین اس وقت مسئلہ کشمیر کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی ، جب پہلی مرتبہ اقوام متحدہ میں صرف کشمیر کے مسئلے کو اٹھایا جا رہا تھا ۔ انھوں نے کہہ دیا کہ مقبوضہ کشمیر سے زیادہ تو فاٹا میں ظلم و زیادتی کی جاتی ہے۔عسکری اداروں پر مولانا فضل الرحمن کا یہ سرجیکل اسٹرائک اٹیک تھا ۔بعد میں انھوں نے بڑے بڑے بلند بانگ دعوے کئے ، لیکن کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہونے کی حیثیت سے گذشتہ تین سالوں میں ان کی کارکردگی صفر رہی۔محمود خان اچکزئی ، جو پہلے ہی شمالی مغربی سرحدوں پر مشتمل علاقوں پر پاکستانی ریاست کو بتا چکے ہیں کہ یہ افغانستان کے ہیں ان علاقوں پر پاکستان کا حق نہیں ، جب مسئلہ کشمیر پر بات آئی تو انھوں نے بھی زہر افشانی کرڈالی کہ پاکستان کے حق میں زبردستی نعرے نہیں لگوائے جاسکتے۔

Kashmir Violence

Kashmir Violence

یعنی مقبوضہ کشمیر میں جو بھارت ، کشمیریوں پر زیادتی کررہا ہے ، ظلم کی تاریخ رقم کررہا ہے ۔ پاکستان زندباد کے نعرے لگا رہے ہیں تو یہ پاکستان زبردستی لگوا رہا ہے۔تحریک انصاف کے چیئرمین کو اقتدار کی ہوس ہے اس لئے دھرناسیریز سے انھیں فرصت ہی نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت نہ کرکے بھارت کے بھی مقبول لیڈر بن گئے۔پاکستان پیپلز پارٹی کا سوال گو کہ اس وقت مناسب نہیں تھا ، لیکن اہم ضرور تھا ۔ واقعی وزیر اعظم کلبھوشن کا نام نہیں لے سکتے ۔کل بھوشن یادو کا ذکر کرتے تو ایران ناراض ہوجاتا۔ عافیہ صدیقی کا ذکر کرتے تو امریکہ ناراض ہوجاتا۔الطاف کا ذکر کرتے تو برطانیہ ناراض ہوجاتا۔یہی وہ مصلحتیں ہیں جن کی وجہ سے مسئلہ کشمیر ، مسئلہ بنا ہوا ہے ۔عمران خان کو اس بات سے سروکار نہیں کہ عالمی اجتماعی ایشوز پر انھیں بردبادری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

مملکت کی تینوں سرحدیں حالت جنگ میں ہیں ، لیکن نیازی صاحب اسلام آباد کا محاصرہ کرنے چلے ہیں ۔پاکستان مردہ باد کے نعرے لگانے والے پی پی پی کے نزدیک غدار نہیں ہیں۔بلاول بھٹو کی عجیب منطق و سیاست ہے کہ پاکستان کے خلاف بھارتی ایجنڈے پر کام کرنے والے ان کے نزدیک غدار نہیں ہوتے، الطاف کو غدار نہیں کہتے۔پاکستان اپنی اندرونی مسائل و فروعی مفادات کی سیاست میں اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ وہ اسلامی دنیا کی سربراہی بھی نہیں کرسکتا ۔ جس مملکت کے پاس وزرات خارجہ کے لئے مناسب شخصیت ہی نہیں ہے اور قلمدان ہنوز خالی ہے، تو وہ کشمیر کے مسئلے کے حل کیلئے تو کیا ، وہ اسلامی ممالک کی سربراہی بھی نہیں کرسکتا۔سارک کانفرنس کا ملتوی ہونا ، پاکستان کی وزرات خارجہ کی پالیسی کی واضح ناکامی ہے۔

ہمیں تسلیم کرلینا چاہیے۔بھارت کے سرجیکل اسٹرائک کا پول اور بھارتی میڈیا کی جھوٹ کا ڈھول تو پھٹ چکا ہے ، لیکن پاکستانی سیاست دان کونسا ڈھول پیٹ رہے ہیں ، یہ اقتدار کی ہوس کے شادیانے کون نہیںسن رہا۔جب تک قوم متفق نہیں ہوگی ، اس وقت تک پاکستان کے مسائل بھی حل نہیں ہونگے۔اپنے فروعی مفادات کو مائنس کرو۔کیونکہ یہی فارمولا استحکام پاکستان کی ضمانت ہے۔پاکستان پر بھارت نے تو نہیں لیکن پاکستانی سیاست دانوں نے سرجیکل اسٹرئک اٹیک ضرور کئے۔ جس سے منفی پیغام عالمی برادری کو گیا۔

Qadir Khan

Qadir Khan

تحریر : قادر خان