پاکستان کی پراپرٹی مارکیٹ میں مندی کا رجحان

Property

Property

کراچی : جولائی 2016ء میں حکومت کی جانب سے ٹیکس کے نفاذ کے بعد سے پاکستان کی پراپرٹی مارکیٹ میں سست روی دیکھنے میں آ رہی ہے ۔ یہ سست روی قیمتوں میں کمی بیشی اور مارکیٹ سرگرمیوں کے حوالے سے ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے پورٹل Zameen.com کے مطابق اس سال کی تیسری سہ ماہی میں لاہور’ کراچی اور اسلام آباد کی پراپرٹی مارکیٹ میں قیمتوں میں کمی دیکھنے میں آئی ہے ۔ اگر ہم موجودہ صورتحال کا گزشتہ سال کی صورتحال سے موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہو تا ہے کہ گزشتہ سال کے اسی دورانئے میں پاکستان کے ان تین بڑے شہروں کی پراپرٹی مارکیٹ نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔

لاہور میں اس وقت ایک بھی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں پر سرمایہ کار کشش محسوس کر سکیں’ حتیٰ کہ بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے لاہور نے بھی اس سال کی تیسری سہ ماہی میں پراپرٹی کی قدر میں خاصی کمی کا سامنا کیا ہے اسلام آباد میں تمام نامور مقامات میں پراپرٹی کی قدر میں کمی کی وجہ سے یہاں کے پراپرٹی سیکٹر نے بھی متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔یہی صورتحال کراچی کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کے ساتھ بھی ہے کراچی میں سال کی پہلی ششماہی میں قیمتوں میں اضافے کا رحجان دیکھا گیا تھا جبکہ ٹیکس کے نفاذ کے بعد اس سال کی تیسری سہ ماہی میں یہاں بھی قدرمیں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

پاکستان کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری میں کمی اس وقت تشویش ناک سطح تک پہنچ چکی ہے جبکہ ماہرین کے مطابق اس شعبے کے حالات اس وقت اچھے نہیں ہیں اور اگر یہی صورتحال جاری رہی تو پاکستان کی پراپرٹی مارکیٹ کو نا قابل تلافی نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔ ذیل میں لاہور ‘ اسلام آباد اور کراچی کی پراپرٹی مارکیٹ کا تفصیلی جائزہ پیش خدمت ہے۔

لاہور : 2015ء کی تیسری سہ ماہی میں پاکستان کی پراپرٹی مارکیٹ کی کارکردگی شاندار تھی ۔تاہم اس سال یعنی 2016ء میں لاہور کی پراپرٹی مارکیٹ کی صورتحال گزشتہ سال کے برعکس ہے۔ اس وقت سرمایہ کاری میںکمی کی وجہ سے مارکیٹ لرز رہی ہے ۔رپورٹ کے مطابق ڈی ایچ اے لاہور فیز سات سے نو میں ایک کنال کے پلاٹ کی قیمتوں میں 2.74فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ اسی علاقے میں دس مرلہ کے پلاٹس کی قیمتوں میں 3.55فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی ۔ دوسری جانب ڈی ایچ اے فیز ایک سے چھ میں ایک کنال کے پلاٹ کے حوالے سے 2.28فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے’ جبکہ اسی علاقے میں دس مرلہ کے پلاٹس کی قیمتوں میں 1.99فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے ۔بحریہ آرچرڈز میں ایک کنال کے پلاٹ کی قیمتوں میں 3.49فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے ۔ایل ڈی اے ایونیو ون میں ایک کنال اور دس مرلے کے پلاٹس کی جانکاری میں بالترتیب 3.49فیصد اور3.10فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

اسلام آباد : وفاقی دارلحکومت میں بھی اس سال کی تیسری سہ ماہی کوئی حوصلہ افزاء نہیں تھی ۔ ٹیکس کے نفاذ کے بعد اسلام آباد کے مختلف مقامات میں قیمتوں میں تنزلی کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ 30ستمبر کو اختتام پذیر ہونے والی اس سہ ماہی میں ڈی ایچ اے اسلام آباد میںایک کنال کے پلاٹس کی قیمتوں میں 1.31فیصد کی کمی جبکہ بحریہ ٹاؤن اسلام آباد کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 1.31فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے ۔سیکٹربی 17میں بھی پراپرٹی کے کاروبار کی سرگرمیاں رکی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے یہاں پر ایک کنال کے پلاٹ کی قیمتوں میں3.32فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی ۔دوسری جانب ایف الیون میں اس سال کے ابتدائی چھ میں قیمتیں مستحکم رہی تھیں جبکہ امسال تیسری سہ ماہی میں یہاں بھی قیمتوں میں کمی کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔

کراچی : 2016ء کے پہلے چھ ماہ میں کراچی میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار ترقی کر رہا تھا تا ہم ٹیکس کے نفاذکے بعد سے مثبت پہلو میں کمی دیکھنے میں آئی ۔جولائی تا ستمبر کے عرصے کے حوالے سے زمین ڈاٹ کام کے اعدادو شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ڈی ایچ اے کراچی میں 500مربع گز کے پلاٹ کی قیمت طلب میں 4.03فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی جبکہ ڈی ایچ اے سٹی کراچی میں اسی حجم کے پلاٹ کے حوالے سے 7.22فیصد کی کمی کا مشاہدہ کیا گیا۔ یہ وہی مقامات ہیں جہاں پر اس سال کے ابتدائی چھ ماہ میں قیمتوں میں اضافے کا رحجان دیکھا گیا تھا۔

نئے ٹیکس کے نفاذ نے بحریہ ٹاؤن کراچی میں بھی قیمتوں کو کم کیا ہے ۔ 2016ء کی تیسری سہ ماہی میں یہاں پر 500مربع گز کے پلاٹ اور 250مربع گز کے پلاٹ کی قیمت طلب میں 1.77فیصد اور 4.15فیصد کی بالترتیب کمی دیکھنے میں آئی۔ اسی طرح سے گلشن اقبال میں بھی یہی رحجان دیکھنے میں آیا جہاںپر اس سہ ماہی میں پراپرٹی کی قیمتوں میں کمی دیکھنے میں آئی۔

حتمی تجزیہ: اگرچہ پراپرٹی کی مارکیٹ میں اس وقت سرمایہ کاری کی صورتحال میں خاطر کمی دیکھنے میں آئی ہے، تاہم ابھی بھی بر وقت اقدامات سے صورتحال پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ متعلقہ حکام کو اس بابت نہ صرف سوچنا ہوگا بلکہ مارکیٹ کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے مناسب اقدامات بھی کرنے ہونگے ۔ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 500رئیل اسٹیٹ ایجنسیاں اپنے کاروبار کو بند کر چکی ہیں اور ایک بڑی تعداد نے مارکیٹ کی صورتحال کے پیش نظر انضمام کیا ہے ۔ یہاں سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ مارکیٹ درحقیقت کہاں جا رہی ہے۔

مزید براں اگر ایسی صورتحال کا تسلسل رہتا ہے تو مستقبل قریب میں نہ صرف مزید ایجنسیاں بند ہو جائیں گی بلکہ مارکیٹ نا قابل واپسی مقام پر پہنچ سکتی ہے ۔ ماہرین کا کہناہے کہ ٹیکس کے معاملے پر نظر ثانی سے مارکیٹ کی صورتحال کو بہتری کی جانب گامزن کیا جا سکتاہے۔