پاکستان میں را کی تخریب کاری اور ہماری ذمہ داریاں

Raheel Sharif Conference

Raheel Sharif Conference

تحریر : محمد راشد
5مئی کو کور کمانڈرز کانفرنس میں یہ بات واضح طور پر کہی گئی کہ پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی ”را” کا ہاتھ ہے۔ اسی کانفرنس میں یہ فیصلہ ہو ا کہ بھارتی دہشت گردی کے خلاف سختی سے نمٹا جائے گا۔ اس سے کچھ روز قبل آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے یہ بیان دیا تھاکہ” را”پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ ہے جو بد امنی، ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کو فروغ دے کر پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنا چاہتی ہے۔ کورکمانڈر کانفرنس میںیہ بھی بتایا گیا کہ سانحہ صفورا چورنگی بس میں سوار اسماعیلی فرقے کے لوگ جنہیں سر میں گولیاں مار کر قتل کیا گیا اور سماجی کارکن سبین محمود کے قتل میں بھی ”را” کے ملوث ہونے کے ثبوت واضح ہیں۔ ان بیانات کے سامنے آنے کے بعد وزیر اعظم اور وزراء کی طرف سے بھی بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے بیانات دہرائے گئے۔

یہ بیانات خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا عندیہ دے رہے ہیں۔ تاہم اس سے بہت قبل بھارتی مشیر برائے قومی سلامتی اجیت دوول نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ ہم پاکستان کے خلاف Offence Defence کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں اور دہشت گردی کو اس کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔بھارت کی پاکستان میں عدم استحکام پھیلانے اور بلوچستان میں علیحدگی پسندی کو فروغ دینے کی کوششیں بہت دیر سے جار ی ہیں۔ اس کے ثبوت سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے شرم الشیخ میں بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے ملاقات میں پیش کئے تھے۔ حقائق کو دیکھا جائے تو بھارت نے شروع سے ہی افغانستان کی سر زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان کے تعلقات آغازسے ہی افغانستان سے خوشگوار نہیں رہے اور بھارت نے اس کمزوری سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ 1950سے کبھی پختونستان کے نام سے تو کبھی سندھو ویش کے نام سے بغاوتیں کھڑی کرنے کی کوششیں کی ہیں۔1970کی دہائی میں بلوچستان میں گریٹر بلوچستان کے تحت علیحدگی پسندی کو ہوا دی گئی۔

تاہم پاکستان نے بھارت کی سازشوں کو ناکام کرتے ہوئے ان علاقوں کو پرامن بنایا۔مگر9/11 کے بعد بھارت کو کھیل کھیلنے کا موقع ملا۔ افغانستان پر حملہ آور مغربی فوجوں کی موجودگی میں بھارت کی چاندی ہو گئی۔ ایک طرف اس نے کشمیر میں اپنے غاصبانہ قبضے کو مستحکم کرنے کی کوشش کی تو دوسری طرف نیٹو کی چھتری تلے پاکستان کی مغربی سرحد سے دخل اندازی کے ذریعے قبائلی علاقوں، بلوچستان، کراچی وغیرہ میں بدامنی پھیلانا شروع کردی۔بھارت اس خطے میں امریکہ کا اہم سٹریٹیجک اتحادی ہے۔ امریکہ ہر صورت اس خطے میں اس کی تھانیداری قائم کرنا چاہتا ہے۔ افغانستان میں امریکی اتحادی فوجوں کی موجودگی میں بھارت نے پاک افغان سرحد پر اپنے قونصل خانے قائم کئے جن کا مقصد فقط پاکستان میں بغاوت، دہشت گردی اور تخریب کاری کو عام کرنا تھا۔

CIA

CIA

امریکہ کی سی آئی اے بھارتی خفیہ ایجنسی RAW کی مکمل پشت پناہی کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ دیگر ممالک کی خفیہ ایجنسیاں بشمول اسرائیل کی موساد افغانستان میں پاکستان کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بھارت نے ایران کے ذریعے بھی پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس مقصد کے لئے ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس طرح ”را” ستر ہزار پاکستانیوں کی قاتل ہے۔ اس کے ہاتھ فاٹا سے کراچی تک پاکستان کی شیعہ،سنی،اسماعیلی اور عیسائی آبادی کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں مختلف لسانی گروہوںو مذہبی مکاتب فکر کو لڑایا جائے۔ فوج اور عوام کو با ہم دست وگریباں کیا جائے اور یوںملک کو سیاسی، معاشی اور معاشرتی عدم استحکام کا شکار کیا جائے۔ پاکستان نے جب بھارت کے اس کردار کو دنیا کے سامنے واضح کیا تو بھارتی وزیر دفاع منوہرپاریکر نے واضح طور پر اس کا اعتراف کرتے ہوئے دہشت گردی کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کا اعادہ کیا۔ جس پر اسے پارلیمنٹ میں داد تحسین دی گئی۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف اعلانیہ جنگ لڑ رہا ہے۔

بھارت دراصل افغانستان میں اپنی ناکامی پر بھی سیخ پا ہے کیونکہ امریکی شکست کھا کر ناکام ہو چکے ہیں، بھارت کے منصوبے خاک میں مل رہے ہیں اور پاکستان افغانستان کے سیاسی و عسکری محاذوں پر کامیاب ہے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ کسی افغان حکومت سے پاکستان کے اس قدر خوشگوار تعلقات قائم ہوئے ہیں۔ حال ہی میں افغان خفیہ ایجنسی NDS اور آئی ایس آئی کے درمیان دہشت گردی کے خلاف باہمی تعاون کا معاہدہ طے پانا خوش آئند قدم ہے۔ انڈیا اس پر پریشان ہے کیونکہ افغانستان میں اس کی بات نہیں بن رہی۔ اس کا واضح اشارہ اس معاہدے پر اجیت دوول کے رد عمل سے بھی ملتا ہے۔ بھارتی جیمز بانڈنے کہا ہے کہ افغانستان ہمیشہ سے ہمارا سٹریٹیجک پوائنٹ ہے اور ہم اسے اپنے دفاع کے لئے استعمال کرتے رہیںگے۔دوسری جانب گوادر پر چینی سرمایہ کاری اور اس کا فعال ہونا، پاکستان اور چین کے درمیان سرمایہ کاری کے وسیع معاہدے اور پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کا آغاز بھارت سے کسی صورت برداشت نہیں ہو رہا۔ کیونکہ اس سے دونوں ممالک کو معاشی اور دفاعی اعتبار سے فائدہ ملے گا۔

اس لئے بھارت چاہتا ہے یہ کامیاب نہ ہوجس کی طرف چین کے سرکاری عہدیداران بھی اشارہ کر چکے ہیں۔ اب تو بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی کہہ دیا ہے کہ اقتصادی راہداری ہمیں قابل قبول نہیں۔امریکی و بھارتی دہشت گردی کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اس نے پاکستان میں فکری جنگ لڑنے کے لئے بھی وسیع سرمایہ کاری کی۔ ایک طرف گزشتہ دس سالوں میں پاکستان کے خلاف سازشیں ہو رہی تھیں تو دوسری طرف میڈیا کے ذریعے بھارتی کلچر کی یلغار جاری تھی۔ بھارت پاکستان میں تخریب کاری کر رہا تھاتو اس کا میڈیاپاکستان کے خلاف پروپیگنڈے اور ہزرہ سرائی میں مصروف تھا جبکہ پاکستان میں ”امن کی آشا ”کا پیغام دیا جا رہا تھا۔ ”سیفما” جیسے فورم نظریہ پاکستان اور بھارت سے دشمنی کو دقیانوسی قرار دے رہے تھے، ہمارے میڈیا پر بھارت کی وکالت ہو رہی تھی۔ پاکستان میں نوجوانوں کو سیکولرازم، موسیقی اور سروں کی جنگ سے فتح کیا جا رہاتھا۔این جی اوز اپنا مغرب زدہ ایجنڈا پھیلا کر ملک کو کمزور کر رہی تھیں۔ نصاب کو سیکولرائز کر کے ملک میں فکری انتشار پھیلایا جا رہا تھا۔ یہ کام اب بھی جاری ہیں۔ہمارے ہاں حکمرانوں، ملک کے موثر طبقات اور پالیسی سازوں کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ پاکستان اسلام کے نام پربنا اور اس کی بقاو استحکام کا راز بھی اسلام ہی میں مضمر ہے۔ اس نظریے سے دوری کی بنا پر پاکستان ٹوٹا، صوبائیت، لسانیت اور فرقہ واریت کے آسیب کھڑے ہوئے۔

Pakistan Army

Pakistan Army

اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دوطرفہ جنگ کا جواب دیا جائے۔ حکومت اور دیگر ادارے ایک صفحے پر آئیں۔ میڈیا قومی مفاد کا پاسبان ہو۔ بھارتی دہشتگردی کو عالمی فورمز پر اٹھایا جائے۔ دنیا کو بتایا جائے کہ بغل میں چھری منہ میں رام رام کا چانکیائی فلسفہ پاکستان میں کیا گل کھلا رہا ہے۔ فوج آپریشن کے ذریعے دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہے مگر بات یہاں تک کافی نہیں، عوام کی ذہن سازی بھی ضروری ہے۔ نظریہ پاکستان اور کلمہ لا الہ الا للہ پر قوم کو متحد کیا جائے اور جو گمراہ ہوئے اور دشمن کی سازشوں کا شکار ہیں ان کی تربیت کی جائے۔ یہ وقت ہے کہ کشمیر کی تحریک آزادی کو مضبوط کیا جائے۔ کشمیری جو اس وقت پاکستان کے لئے اپنا سب کچھ دائو پر لگا کر پاکستان سے محبت اور الحاق کا اظہار کر رہے ہیں، ان کے مسئلے کو دنیا بھر میں اٹھایا جائے۔ علاوہ ازیں جونا گڑھ، مناوادر، حیدر آباد دکن کے وہ پاکستانی علاقے جو بھارت کے قبضے میں ہیں ان کے لئے آواز بلند کی جائے۔ بھارت کو یہ بتایا جائے کہ ہم کمزور نہیں، ہمارے راستے کھلے ہیں۔ میڈیا احساس ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان کے دفاع کی جنگ لڑے، ملک پاکستان کے خلاف امریکی و بھارتی سازشوں کو بے نقاب کرے اور قوم کومنتشر اور تقسیم کرنے کی بجائے متحد کر کے بیرونی سازشوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنائے۔

دوسری جانب بلوچستان اور تھر کے وہ علاقے جو محرومیوں اور غربت کا شکار ہیں، ان کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ ان لوگوں کی محرومیوںکو دور کرنا ضروری ہے۔ آج بلوچستان اور تھرپارکر میں پانی کی کمی ہے، سڑکوں کا وجود نہیں، گرمی شدید ہے اور غربت بہت زیادہ ہے۔ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے کہ سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے عوام کی محرومیوں کو دور کر کے انہیں ایک قوم کا احساس دلائے۔ بلوچستان اور دیہی سندھ میں پاکستان کو دوبارہ زندہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں فلاح انسانیت فائونڈیشن اور دیگر رفاہی اداروں کا کام لائق تحسین ہے جنہوں نے بلوچوں میں کلمہ کی بنیاد پر محبتوں کو از سر نو جنم دیا۔ یہ کام توبنیادی طور پر حکومت کا ہے۔ وہ آغاز حقوق بلوچستان پرو جیکٹ کو محض دعوئوں تک محدود رکھنے کی بجائے اس کے ثمرات عوام الناس تک پہنچائے۔اس حالت جنگ میں حکومت کے ساتھ ساتھ قوم بالخصوص نوجوانوں کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، کیونکہ جنگیں صرف فوجیں نہیں لڑا کرتی بلکہ قومیں لڑتی ہیں۔ اس وقت طلبا کو اہم کردار ادا کرنا ہے۔ انہیں امریکی، یہودی اور بھارتی سازشوں کو سمجھنا ہے۔

ان کے آگے تر نوالہ نہیں بننا، اپنے آپ کو اسلام کے رنگ میں ڈھالنا ہے۔ اپنے کردار کے ذریعے اس ملک میں تبدیلی لے کر آنی ہے۔ نظریہ پاکستان پر نوجوانوں کی تربیت کرنی ہے۔ اس حوالے سے المحمدیہ سٹوڈنٹس ملک بھر میں طلبا کو موجودہ ملکی صورتحال ، عالم کفر کی سازشوں، میڈیا وار، پاکستان کے خلاف بھارتی منصوبوں اور اس کے حوالے سے ان کے کردار سے روشناس کروا رہی ہیں۔ ملک بھر میں “We Are Under Attack” کے نام سے ملٹی میڈیا پریزنٹیشنز دی جا رہی ہیں۔ یونیورسٹیوں میں طلبا سیمینارز کے ذریعے طلبا کو شعور دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے کردار کو پہچانیں اور پاکستان ، عالم اسلام اور اپنے لئے، اپنی اہمیت کو سمجھیں اور اپنی جوانیوں کو اسلام کا سرمایہ بنانے کے لئے ہمارے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔یقینا یہ وہ کردار ہے جب اس کو معاشروں میں پیدا کیاجائے گا تو دشمنوںکو منہ کی کھانا پڑے گی۔ پاکستان اور اہل اسلام سرخرو ہوں گے۔ ان شاء اللہ

Rashid Bhai

Rashid Bhai

تحریر : محمد راشد