پاکستان اور سعودی عرب میں گہرے دوستانہ تعلقات ہیں

Muhammad Bin Salman and Nawaz Sharif

Muhammad Bin Salman and Nawaz Sharif

تحریر : محمد اشفاق راجا
سعودی عرب کے نائب ولی عہد و وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے گزشتہ شب وزیراعظم محمد نواز شریف سے وزیراعظم ہائوس میں ملاقات کی۔ وزیراعظم نے سعودی نائب ولی عہد کے اعزاز میں عشائیہ بھی دیا۔ ون آن ون ملاقات میں دوطرفہ دلچسپی کے امور اور دفاعی شعبے میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ سعودی ولی عہد نے یقین دہانی کرائی کہ سعودی عرب ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوگا۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب میں گہرے دوستانہ تعلقات ہیں۔ سعودی عرب کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان ساتھ کھڑا ہے۔ دریں اثنا ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ ایران اور پاکستان کے درمیان قریبی تعلقات سے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کو مزید بہتر بنانے کے مواقع میسر آئینگے۔

تہران میں پاکستانی سفیر ا?صف علی خان درانی سے انکی اسناد تقرری وصول کرتے ہوئے ایرانی صدر نے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی میدان میں دستخط شدہ معاہدوں پر عمل درا?مد کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ان معاہدوں پر عملدرآمد سے تہران اور اسلام آباد اقتصادی تعاون کو مزید بڑھانے کے قابل ہو جائینگے۔ حسن روحانی نے سرحدوں پر اور خطے میں سکیورٹی فراہم کرنے کیلئے پاکستان کے ساتھ قریبی مشترکہ تعاون پر زور دیا۔ میرا حالیہ دورہ پاکستان بہت کامیاب رہا ہے۔ اس دورے میں اہم فیصلے کئے گئے ان فیصلوں پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔

سعودی عرب اور ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے مگر اہمیت یکساں ہے۔ عالمی سطح پر بھی دونوں ممالک کو ایک مقام حاصل ہے۔ پاکستان عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت ہونے کے ناطے عالمی منظرنامے میں نمایاں ہے۔ جب مسلم ممالک کی بات ہوتی ہے تو ترکی اور انڈونیشیا سمیت دیگر کئی ممالک کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ خوش قسمتی کی بات ہے کہ دنیا کے 58 ممالک او آئی سی کے پلیٹ فارم پر متحد ہیں مگر بدقسمتی یہ ہے کہ ان میں یکجائیت نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے یہ تنظیم فعال نظر نہیں آتی۔ سعودی وزیر دفاع کا پاکستان کے دورے پر پرتپاک استقبال کیا گیا’ اس پر وہ نہال نظر آئے۔

Hassan Rouhani

Hassan Rouhani

ایرانی صدر روحانی نے اپنے حالیہ دورے کو کامیاب قرار دیا ہے۔ اگر شہزادہ محمد بن سلمان کے بیان کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں بڑی گرم جوشی پائی جاتی ہے مگر اس میں بھی شک نہیں کہ سعودی عرب کے مطالبے پر جنگ یمن میں فوج بھجوانے کے مطالبے پر پارلیمنٹ کی طرف سے انکار کے تناظر میں نہ صرف سعودی حکمرانوں بلکہ انکے دوست عرب ممالک کے فرمانروائوں کے دل میں بھی ناراضی کا عنصر جڑ پکڑ گیا تھا پارلیمنٹ کی قرارداد پر عمل نواز حکومت کی مجبوری تھی تاہم خود نوازشریف اپنی اور اپنے خاندان کی سالہا سال مہمان نوازی اور ڈیڑھ ارب ڈالر کے تحفے پر سعودی حکمرانوں کے ممنون تھے۔ پارلیمنٹ کی قرارداد نے ان کو مجبور محض بنا دیا جس سے پاکستان سعودی عرب تعلقات میں سردمہری آئی۔

اْدھر وزیراعظم نوازشریف کے سعودی عرب کی حمایت اور ایران کو ناصحانہ بیانات پر ایران بھی ناراض ہوا مگر ایران کی طرف سے محتاط رویہ اختیار کیا گیا حالانکہ انہی دنوں ترک صدر اردگان کے ایسے ہی بیانات پر ایران نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تو ترک صدر کو معذرت کیلئے خود ایران آنا پڑا تھا۔ یمن سعودیہ جنگ نے پاکستان کے ایران اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو متاثر کیا جس کے اثرات ان ممالک کے مثبت رویے اور بیانات کے باوجود آج بھی موجود ہیں۔ اس موقع سے بھارت نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے ایران’ سعودی عرب اور یو اے ای کے دورے کئے’ ان میں مودی کی پذیرائی حیران کن طور پر بڑھ چڑھ کر کی گئی۔ دفاعی اور تجارتی تعاون کے معاہدے تو ایک روایت اور معمول ہے۔

یواے ای میں ہندوئوں کیلئے سرکاری سطح پر مندر بنانے کا اعلان کیا گیا اور سعودی عرب نے مودی کو اپنا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا جو اب تک پاکستان کے کسی حکمران کے حصے میں نہیں آیا۔ ایران نے بھارت کو اپنے اندر ضرورت سے زیادہ ہی رسائی دیدی۔ چاہ بہار پورٹ کی تعمیر میں پڑوسی اور برادر اسلامی ملک پاکستان پوری طرح ممدومعاون ثابت ہو سکتا تھا مگر ایران نے بھارت کو اسکی تعمیر میں حصہ دار بنالیا جو ہر صورت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اور سی پیک و گوادر پورٹ کو ناکامی سے ہمکنار کرنے کیلئے کوشاں تھا۔ اس نے ایرانی سرزمین کو چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر کے بہانے انہی مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت کلبھوشن کی بلوچستان سے گرفتاری ہے جو ایران سے پاکستان میں داخل ہوا’ اس کا سارا سیٹ اپ ایران میں تھا۔ امریکہ پہلے ہی دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ بھارت نے کئی مسلم ملک کے ساتھ پاکستان کی قربت ختم کراکے دوریاں پیدا کرنے کی کوشش کی’ افغانستان کے حکمران ہمیشہ سے بھارت کے بغل بچے کا کردار ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔

Pakistan Terrorism

Pakistan Terrorism

آج پاکستان بدترین دہشت گردی کا شکار ہے۔ ایران’ سعودی عرب اور ترکی سمیت بہت سے دیگر مسلم ممالک بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہیں۔ ایران کو گو اندرونی دہشت گردی کا سامنا نہیں مگر اسکی پاکستان اور افغانستان سے جڑی سرحدیں محفوظ نہیں ہیں۔ حسن روحانی نے پاکستانی سفیر آصف درانی کے ذریعے پاکستان پر سکیورٹی کے حوالے سے تعاون پر زور دیا ہے۔ پاک ایران بارڈر پر دہشت گردوں کی سرگرمیوں سے پاک ایران تعلقات میں کشیدگی بھی در آتی رہی ہے۔ ایران کو پاکستان کے خود بدترین دہشت گردی کا شکار ہونے کا علم ہے اس لئے اسکی طرف سے شدید ردعمل سامنے نہیں آتا۔ایران پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے جس کے ساتھ پاکستان کے کوئی سنجیدہ تنازعات نہیں ہیں۔ سعودی عرب سے قربت ایک قدرتی اور فطری امر ہے۔ پاکستان دونوں ممالک یادونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی تعلقات میں کشیدگی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

بادی النظر میں ہمارے حکمرانوں کا ایران کے مقابلے میں سعودی عرب کی طرف زیادہ جھکائو ہے۔ اسکی وجہ امریکہ کا دبائو بھی ہو سکتا ہے جس نے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرلئے جبکہ پاکستان پر ایران کے ساتھ معاہدوں میں عمل کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے لہٰذا صدر روحانی کو بھی یاددہانی کرانی پڑی ہے کہ پاکستان انکے دورے کے دوران ہونیوالے فیصلوں پر عمل کرے۔بہترین سفارت کاری اور حکمت عملی دوستوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے جس کا فقدان یوں نظر آیا کہ جنگ یمن میں پاکستان نے ایران اور سعودی عرب دونوں کو ناراض کر دیا۔ ایک موقع پر وزیراعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف ایران سعودیہ اختلافات کی خلیج پاٹنے نکلے مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ آپس کے اختلافات ختم کرانے اور تنازعات طے کرانے کیلئے او آئی سی موجود ہے مگر یہ فورم بھی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔

جس کے باعث مسلم ممالک کے آپس میں اختلافات اور تنازعات میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ معروضی حالات اسکے مضبوط’ متحد اور مصلحتوں سے بالاتر ہ کر فیصلے کرنے کے متقاضی ہیں۔ او آئی سی کے فورم کو مسلم ممالک میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ فورم مضبوط ہو’ مسلم ممالک یکجان ہوں تو مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کے حل کی راہ نکل سکتی ہے پاکستان مسلم ممالک کی واحد ایٹمی قوت ہے۔ اسے کئی ممالک اسلام کے قلعہ سے تعبیر کرتے ہیں یوں پاکستان کو ایک انفرادیت اور ممتاز مقام حاصل ہے۔ پاکستان غیرجانبدار رہ کر ایران سعودی اختلافات سمیت مسلم ممالک کے مابین موجود تنازعات طے کراسکتا ہے جس میں شام کی صورتحال بھی اہم ہے۔

Muhammad Ashfaq Raja

Muhammad Ashfaq Raja

تحریر : محمد اشفاق راجا