کو پروڈکشن کے بغیر پاکستانی فلموں کی عالمی منڈی تک رسائی ممکن نہیں، سارہ لورین

Sara Loren

Sara Loren

لاہور (جیوڈیسک) معروف اداکارہ وماڈل سارہ لورین نے کہا ہے کہ عوامی مزاج کی فلمیں بننی چاہئیں، کوپروڈکشن کے بغیر عالمی منڈی تک رسائی ممکن نہیں۔

کوپروڈکشن کے لیے بھارت سمیت بیشترممالک تک رسائی بہت ضروری ہے اس سے جہاں پاکستان کے دوسرے ممالک سے تعلقات بہترہونگے وہیں پاکستان فلم انڈسٹری کوانٹرنیشنل مارکیٹ تک جانے میں بھی آسانی ہوگی۔

ان خیالات کااظہارسارہ لورین نے گزشتہ روز گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے کہا کہ جس طرح پاکستانی فلمیں اسٹوڈیو کی چار دیواری سے باہرنکل کراب خوبصورت مقامات پربنائی جارہی ہیں اوران کے موضوعات اور کردار جاندار ہونے لگے ہیں، اسی طرح اگرانٹرنیشنل مارکیٹ میں اپنی جگہ بنانے کے لیے کوپروڈکشن سے استفادہ کیا جائے تویقینا غلط نہ ہوگا۔ اس وقت دنیا بھرمیں کوپروڈکشن کا سلسلہ جاری ہے۔

اگرہم پڑوسی ملک بھارت کی فلم انڈسٹری بالی وڈ کا جائزہ لیں تویہاں سال بھرمیں بننے والی ایک ہزار سے زائد فلموں میں لاتعداد غیرملکی فنکارکام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح بالی وڈ کے متعدد فنکار اب ہالی وڈ میں کام کررہے ہیں اوریہ سلسلہ کوئی نیا نہیں بلکہ بہت پرانا ہے۔

ماضی میں ہم بہت سی ایسی ہالی وڈ فلمیں دیکھ چکے ہیں جن میں بھارتی فنکاروں نے بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہردکھائے۔ یہ وہ تمام ذرائع ہیں جن کی بدولت آج بالی وڈ دنیا کی دوسری بڑی فلم انڈسٹری بن چکی ہے۔ ہمیں بھی اسی طرح سے پاکستانی سینما کودنیا بھرمیں لے کرجانا چاہیے۔ اس وقت فلموں کا معیار بہت اچھا ہوچکا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی سے فلمیں بنائی جارہی ہیں اورخوش قسمتی سے فلم بین بڑی تعداد میں سینما گھروں کارخ کررہے ہیں۔

ہمارے نوجوان فلم میکرز کوبھی کوپروڈکشن بارے سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ ایک سوال کے جواب میں سارہ لورین نے کہا کہ بطوراداکارہ میں سمجھتی ہوں کہ انٹرنیشنل مارکیٹ تک رسائی کے لیے سب سے پہلے ہمیں بہترین اورعمدہ کہانی تلاش کرنی چاہیے۔

اس کے بعد فنکاروںکا انتخاب اورلوکیشنز پرتوجہ دینی چاہیے تاکہ جب ہماری فلم دنیا کے بیشترممالک میں بیک وقت نمائش کے لیے ریلیز ہوتواس کودیکھنے والے چند منٹ بعدہی سینماہال سے باہر نہ نکل جائیں۔ ہمیں بہت سوچ سمجھ کراورسروے کے بعد لوگوں کے مزاج کومدنظررکھتے ہوئے کام کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھرہمیں بہت جلد اپنی اننگز ختم کرکے ہوم گراؤنڈ تک محدود رہنا ہوگا جو ہمارے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوگا۔