فلسطین میں یہودی بستیوں پر سلامتی کونسل کی قرار داد

Security Council

Security Council

تحریر : سید توقیر زیدی
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف قرار داد منظور کر لی قرار داد میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی علاقوں میں غیر قانونی یہودی بستیاں ختم کی جائیں قرار داد کے حق میں 14ووٹ ڈالے گئے امریکہ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ایک روز قبل منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مداخلت پر مصر کی درخواست پر قرار داد پر رائے شماری ملتوی کی گئی تھی اسرائیل نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم سے اس سلسلے میں رابطہ کیا تھا اور ٹرمپ نے مصری صدر السیسی سے بات کی تھی۔جہاں تک فلسطینی علاقے میں اسرائیلی بستیوں کی آبادی کا مسئلہ ہے یہ کوئی آج پیدا نہیں ہوا، اب تو کئی عشرے گذر گئے کہ اسرائیل نے ان بستیوں کی تعمیر شروع کی تھی جن کا سلسلہ پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے، عالمی برادری ان بستیوں کو غیر قانونی تصور کرتی ہے قرار داد کی منظوری سے بھی ظاہر ہے کہ ایک بھی ووٹ اس کے خلاف نہیں آیا، امریکی مندوب نے بھی مخالفت کرنے کی بجائے غیر حاضر رہنے کو ترجیح دی یہ بات اہم ہے کہ سلامتی کونسل کی اس قرار داد پر عملدرآمد کس طرح ہو گا؟ کیونکہ اسرائیل نے امریکہ اور دوسری مغربی طاقتوں کی شہ پر ہمیشہ ان قرار دادوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا ہے اور دنیا اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی، اب بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی تو خواہش تھی کہ قرار داد کو کسی نہ کسی طرح مؤخر کروا دیا جائے اور انہوں نے مصر کے صدر سے اسی لئے ٹیلی فون پر بات چیت بھی کی تاہم انہیں اس میں کامیابی نہ ہو سکی۔

قرار داد کی منظوری کی حد تک تو اس میں عالمی ادارے کی یہ خواہش جھلکتی ہے کہ اسرائیل، فلسطینی علاقے میں غیر قانونی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ روک دے لیکن بظاہر اسرائیل کا ایسا کوئی ارادہ سامنے نہیں آیا کہ وہ اس قرار داد پر عمل کرے گا بلکہ وہ ٹرمپ کے حلف اٹھانے کا انتظار کرے گا جو اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی اسرائیل کی زبان بولتے رہے ہیں اور انہوں نے یہاں تک کہہ رکھا ہے کہ ان کے صدارت سنبھالتے ہی امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کر دیا جائیگا۔ اب اگر وہ اپنے اس ارادے کو عملی جامہ پہناتے ہیں تو صاف پتہ چل جائیگا کہ وہ فلسطین کے پورے قضیے کو اسرائیل کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور اس سے ہٹ کر کوئی بات سوچنے سمجھنے کے لئے تیار نہیں۔ عالمی ادارے نے آج تک جتنی قرار دادیں منظور کی ہیں ان میں سے صرف ایسی قرار دادوں پر عمل ہو سکا جن کی عالمی طاقتیں حامی تھیں۔کویت پر عراقی قبضہ بھی امریکہ نے بزور طاقت ختم کرایا اور یوں اقوام متحدہ کی قرار داد پر عمل بھی ہو گیا اگر ایسا نہ ہوتا تو اس قرار داد کا حشر بھی کشمیر پر قرار دادوں کی طرح ہوتا جن پر آج تک عمل نہیں ہو سکا کیونکہ کوئی بڑی طاقت عملدرآمد کرانے کے موڈ میں نہیں اور ہمیشہ دونوں ملکوں کو یہی تلقین کرتی رہتی ہیں کہ وہ اپنے تنازعات باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ یوں کشمیر کا مسئلہ 70 برس سے حل طلب چلا آ رہا ہے۔

امریکی صدور عمومی طور پر اسرائیل کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں اور جو بھی صدر اس پالیسی سے انحراف کی کوشش کرتا ہے اس کے خلاف امریکہ میں اسرائیلی لابی متحرک ہو جاتی ہے اور اس کے خلاف طرح طرح کے اقدامات شروع کر دیتی ہے۔ کوئی بھی صدر اسرائیل مخالف تو کبھی نہیں رہا لیکن جس کسی نے ذرا معقول قسم کی غیر جانبداری اپنانے کی کوشش کی اسے بھی اسرائیل نے برداشت نہ کیا، کارٹر نے اپنے زمانہ صدارات میں کوشش کی کہ فلسطین کو علیحدہ ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا جائے لیکن انہیں اس میں کامیابی نہ ہوئی، جس کا اعتراف وہ اب تک کرتے ہیں اور حال ہی میں انہوں نے اپنے ایک مضمون میں بھی اس پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ یہ کام نہیں کر سکا۔

Israel

Israel

ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اسرائیل کا وجود ہی بنیادی طور پر فلسطین کی سر زمین ہتھیا کر قائم کیا گیا تھا اور عالمی طاقتوں نے اپنے مفادات کے لئے عربوں کے سینے میں اسرائیل کو خنجر کی طرح پیوست کر دیا تھا اسرائیل اپنے قیام سے لیکر اب تک طاقت کے زور پر اپنی علاقائی حدود کی توسیع کرتا رہا ہے اس نے شام اور اردن کے وہ علاقے بھی واپس نہیں کئے جن پر اس نے جنگوں کے دوران قبضہ کر لیا تھا۔ البتہ امریکہ نے مصر اور اسرائیل کے تعلقات قائم کرا دیئے تھے اور اس مقصد کے لئے مشہور ”کیمپ ڈیوڈ” معاہدہ کروایا تھا جس کے تحت مصر کو اس کے مفتوحہ علاقے تو واپس مل گئے لیکن فوجی لحاظ سے عرب دنیا کے اس طاقت ور ترین ملک کو مسلم امہ کے اجتماعی مفاد سے الگ تھلگ کر دیا گیا اور مصر نے بھی فلسطین مخالف رویہ اپنا لیا بعض اوقات تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف مصر وہی کچھ کر رہا ہے جو اسرائیل چاہتا ہے۔ اسرائیلی سرحد پر شام ایک طاقتور ملک تھا جس کی طاقت اب منتشر ہو گئی ہے اور اس کی علاقائی سالمیت بکھر کر رہ گئی ہے جنگجو تنظیموں نے اس کے علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے ایسے میں وہ جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو تو صبر شکر کے ساتھ تسلیم ہی کئے بیٹھا ہے۔

جہاں تک اردن کا تعلق ہے وہ فوجی لحاظ سے اسرائیل کے لئے کوئی چیلنج نہیں۔ لبنان کے بھی اپنے مسائل ہیں ان حالات میں اسرائیل کو نہ صرف اپنی سرحدوں کو پھیلانے کا حوصلہ ہوا بلکہ فلسطین کے ان علاقوں کو بھی اس نے آہستہ آہستہ غصب کرنا شروع کر دیا جو اسرائیل کے قیام کے باوجود فلسطین کا حصہ تھے وہیں یہودی بستیاں بسائی گئیں اور اب ان میں لوگ آباد ہیں یہ سلسلہ اب تک رک نہیں پایا اور نہ آئندہ رکنے کی امید ہے کیونکہ اسرائیل قرار دادوں کو تو مانتا نہیں اور طاقت کا استعمال کوئی ملک اس کے خلاف کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ایک ایران ہے جس سے اسرائیل خوفزدہ رہتا ہے جب امریکہ اور پانچ بڑی طاقتوں نے ایران کے ساتھ نیوکلیئر ڈیل کی تھی تو یہودی ریاست اور اس کے امریکی ہمدردوں نے اس معاہدے کو روکنے کی کوشش کی، لیکن صدر اوباما نہ صرف اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے بلکہ انہوں نے برملا اعلان کیا کہ اگر کانگرس نے اس معاہدے کی منظوری نہ دی تو وہ فیصلے کو ویٹو کر دیں گے۔

اگرچہ اس کی نوبت نہ آئی اور کانگرس سے منظوری مل گئی تاہم اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ معاہدے کو ریورس کر دیں اگرچہ امریکہ کے اندر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ ایسا فیصلہ امریکہ کے مفاد میں نہیں ہو گا تاہم ٹرمپ اس پر تلے ہوئے لگتے ہیں۔ اس لئے ان کے عہد میں یہ امید تو نہیں کی جا سکتی کہ امریکہ سے فلسطین کے حق میں کوئی نحیف سی آواز بھی اٹھے گی اس لئے سیکیورٹی کونسل کی اس قرار داد کو بس ایک قرار داد ہی سمجھا جانا چاہئے عملاً تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ تاہم یہ قرار داد دنیا کے ملکوں کی رائے کو سامنے ضرور لاتی ہے۔

Syed Tauqeer Zaidi

Syed Tauqeer Zaidi

تحریر : سید توقیر زیدی