پانامہ کیس کا فیصلہ صرف آئینی و قانونی ہے یا اسلامی و شرعی بھی ہے

Panama Case

Panama Case

تحریر : عمران چنگیزی
پانامہ کیس کے عدالتی فیصلے سے قبل پر جوش ‘ پر امید اور مطمئن دکھائی دینے اور عدلیہ کی غیر جانبداری پر اظہار اعتماد کرتے ہوئے پانامہ کیس میں عدلیہ کی جانب سے حقیقی احتساب و انصاف کی امید رکھنے والے عوام پاکستان ‘ وزیراعظم کی اہلیت و نااہلیت کے حوالے سے بااختیار جے آئی ٹی کی تشکیل کے عدالتی فیصلے پر نہ صرف انگشت بدنداں بلکہ مایوس و مضطرب بھی دکھائی دے رہے ہیں اور قوم کا ہر فرد دوسرے سے یہی سوال پوچھ رہا ہے کہ کیا عدالت عالیہ کے پاس وزیراعظم اور ان کے صاحبزادوں کو بلانے اور سرمائے کی قطر منتقلی کے حولے سے سوالات پوچھنے کاا ختیار و استحقاق نہیں تھا جو اس مقصد کیلئے اعلیٰ عدلیہ نے جے آئی ٹی تشکیل دی اور اگر عدلیہ اس استحقاق سے محروم تھی تو پھر 20اکتوبر سے 23فروری تک 35سماعتوں پر مشتمل مشق لاحاصل کیوں کی گئی اور اگر جے آئی ٹی کی تشکیل ہی عدالتی فریضہ اور آئینی و اسلامی انصاف تھا تو پھر 23فروری کو محفوظ کئے جانے والے پانامہ کیس کے فیصلے کو سنانے میں دو ماہ کی تاخیر کی وجہ کیا تھی۔

عوام کے ان سوالات کے جواب میں عوامی سطح پر چھڑی بحث میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری کی عوامی یقین و توقعات ایک بار پھر باطل ثابت ہوئی ہیں پاکستانی عدلیہ اپنی سابقہ روایات کی اسیر ہے اور اس سے اسلام کے اصول مساوات کے مطابق حقیقی انصاف کی توقع کرنا ابوجہل سے ایمان لانے یا شیطان سے آدم کو سجدہ کرنے کی توقع جیسا ہے جبکہ کچھ تعب پسند طبقات پانامہ کیس فیصلے کو پنجاب پرستانہ عدلیہ کردار قرار دے رہے ہیں جبکہ پانامہ کیس فیصلے نے کچھ حلقوں کی دماغی کیفیت پر اس حد تک اثر کیا ہے کہ انہوں نے اس فیصلے کو پاکستان پر پنجاب کی فتح قرار دیاہے ۔
اپنی نادانست میں دانشوری کے زعم کا شکار کچھ عوامی طبقات ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے کہ پانامہ کیس ملزمان اور ان کے ساتھی استحصالی سیاست کے پرانے کھلاڑی ہونے کی وجہ سے ہارس ٹریڈنگ کے ماہر ہیں اور جو لوگ مشترکہ اسلامی فوج کی سربراہی کالالچ دیکر جمہوری حکومت کیخلاف فوج کو کسی بھی ممکنہ تادیبی کاروائی سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ان کیلئے عدالتی فیصلوں اورفیصلہ کرنے والوں کی قیمت لگانا کون سا مشکل ہے ویسے بھی آمر مطلق جنرل ضیاءالحق کی چوسنی چوسنے والوں نے اقتدار و اختیار کی طاقت سے جتنی کرپشن کی ہے اور جن ذرائع سے سعودی شیوخ سے راہ و رسم بڑھاکر ان کے منظور نظربنے ہیںان کے سامنے تو پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف فوجی طاقت رکھنے کے باوجود ان کے احتساب میں ناکام اور ان کی باعزت سعودی عرب منتقلی پر مجبور ہوچکے ہیں توپھر اس آئین و قانون کی طاقت کی حامل عدلیہ ان کا کیا بگاڑ سکتی ہے جس آئین اور قانون کو ہر روز مقتدر طبقات توڑتے ‘ روندتے اور پامال کرتے ہیں اور جب چاہتے ہیں اپنی مرضی و مفاد کیلئے اس میں ترمیم وتبدیلی کر ڈالتے ہیںیا نیا قانون لے آتے ہیں۔

پاکستان سے پیار اور عدلیہ کا احترام کرنے والے ایسے بھی کچھ حلقے ہیں جنہوں نے عدالتی فیصلے کے بعدبراست عدلیہ پر عدم اعتماد کا اظہار کرنے کی بجائے اس بات کا شکوہ کیا ہے کہ پانامہ کیس میں عدلیہ نے مساوات کے تقاضے نہیں نبھائے اور نہ تو دوران کیس وزیراعظم کو اپنے عہدے علیحدہ رہنے کا حکم دیا اور نہ ہی فیصلے میں جے آئی ٹی رپورٹ آنے تک وزیراعظم کو چھٹیوں پر جانے اور آئین کے مطابق ان کی جگہ چیئرمین سینیٹ کو قائم مقام وزیراعظم بنانے کی ہدایت کی۔

انصاف انصاف اور احتساب احتساب کی پکار و شور میں کچھ حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پانامہ کیس میں آف شور کمپنیاں بنانے والے میاں صاحب کے دونوں صاحبزادوں ‘ ان کی صاحبزادی کو تا حیات نا اہل قرار دینے کیساتھ عدلیہ کو میاں نواز شریف کو بھی حق حکمرانی سے معزول کردینا چاہئے تھا کیونکہ جو شخص اپنی اولاد کو ملک و قوم کو نقصان پہنچانے سے باز رکھنے میں ناکام رہا وہ وزارت عظمیٰ کے منصب کے لائق نہیں ہے اور اگر میاں صاحب اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ انہیں مریم نواز ‘ حسن نواز اور حسین نواز کے عوام دشمن اقدام کی خبر نہیں تو اپنے ہی گھر سے بے خبر کسی بھی فرد کو پوری قوم اور ملک کی قیادت کی خبر گیری و مسائل کے حل کی ذمہ داری کس طرح سونپی جاسکتی ہے ۔ اتنا ہی نہیں ان حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف نواز شریف ‘ مریم نواز ‘ حسن نواز اور حسین نوا ز کو ہی نا اہل قرار نہیں دیا جاتا بلکہ عدالت میں موجود پانامہ کیس کیخلاف بیانات دینے ‘ سرکاری عہدے ‘ اختیارات اور وسائل کو اپنے خاندان کے افراد پر لگے الزامات کی صفائی کیلئے استعمال کرنے والے شہباز شریف و حمزہ شہباز اور وزیراعظم ا ور ان کے اہلخانہ کی چاپلوسی کیلئے بیانات کی جنگ چھیڑ کرپاکستانی سیاست کو تہذیب و اخلاق سے عاری سیاست ثابت کرنے والے طلال چوہدری ‘ خواجہ آصف ‘ خواجہ سعد رفیق ‘عابد شیر علی ‘ دانیال عزیز اور وزیراطلاعات و نشریات مریم سمیت پوری مسلم لیگ (ن) کسی قسم کے سرکاری ‘ عہدے ‘ مرتبہ ‘ رتبہ اور فرض کیلئے نا اہل قرار دی دینا چاہئے تھا اور انصاف کا تقاضہ تو یہ تھا کہ صرف شریف فیملی ‘ مسلم لیگ کی قیادت اور حکومت میں شامل تمام وزیروں ‘ مشیروں کو ہی نااہل قرار نہیں دیا جاتا بلکہ پانامہ لیک میں شامل ہر فرد کو سیاست کیلئے تاحیات نا اہل قراردیا جاتا جس نے پاکستان کے قومی سرمائے کو کسی بھی طرح سے بیرون ملک منتقل کرنے کا جرم و گناہ کرکے ملک و قوم کو نقصان پہنچایا ہے چاہے اس سرمائے سے آف شور کمپنیاں بنائی گئی ہوں ‘ سرے محل ‘ مکانات ‘ باغات یا فلیٹس خریدے گئے ہوں یا سوئس اکا ¶نٹس بھرے گئے ہوں کیونکہ جب عدلیہ اقتدار و اختیار کے سہارے ظلم واستحصال کرنے ‘ قومی دولت لوٹنے اور کرپشن کیلئے اندرون و بیرون ملک معاہدو ں کے ذریعے ملک و قوم کو سامراجی غلامی میں دینے کی سازش کرنے والوں کا احتساب کرکے انہیں کیفر کردار تک نہیں پہنچائے گی ‘ پاکستانی قوم اسی طرح بیروزگاری ‘ غربت ‘ جہالت ‘ عدم سہولت ‘ نا انصافی ‘ ظلم ‘ استحصال اور تعصب کی چکی میں پستی رہے گی اور مو ¿رخ سابقہ پاکستانی عدلیہ کی طرح موجودہ غیر جانبدار عدلیہ کو بھی ملک و قوم کے مسائل کا ذمہ دار لکھنے پر مجبور ہوگا۔

پاکستان کے عوام خوہ کچھ بھی کہیں ‘ عدالتی فیصلے سے عوام میں خواہ کتنی ہی مایوسی کیوں نہ پھیلے ‘ انصاف سے عوام کا اعتماد چاہے اٹھ جائے ۔راقم تو صرف ایک بات جانتا ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کے صرف دو ہی ادارے پاکستان کی بقا و سلامتی کے ضامن ہیں ایک فوج اور دوسرا عدلیہ اور دونوں ہی ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں اپنا اپنا کردار پوری دیانتداری اور فرض شناسی سے نبھارہے ہیں گوکہ لالچ اور خوف دونوں ہی انسان کو اپنی خصلت ‘ عادت ‘ ہمت ‘ حوصلے اور فرض سے متضاداعمال پر مجبور کرکے ایسے اعمال و فیصلے کرالیتا ہے جن کی توقع بھی نہیں رکھی جاسکتی لیکن پھر بھی بحیثیت پاکستانی ہمیں یقین کامل ہے عدالتوں میں انصاف کی خریدو فروخت عام ضرور ہے مگر اعلیٰ عدلیہ اب تک اس سے محفوظ ہے اور ہارس ٹریڈنگ کا کوئی بھی ماہر نہ تو سپریم کورٹ کے فیصلوں کو خرید سکتا ہے اور ہی ججز کو خوف سے دوچار کرکے حسب منشاءفیصلے لے سکتا ہے اسلئے عدلیہ نے جو بھی فیصلہ دیا ہے وہ یقینا آئین و قوانین کے مطابق ہوگا لیکن کیا کہئے کہ ہمارے اندر کا مسلمان چیخ چیخ کر یہ کہہ رہا ہے کہ اصول مساوات کو نظر انداز کرکے کیا گیا انصاف آئینی اور قانونی انصاف تو ہوسکتا ہے مگر اسلامی اور شرعی انصاف نہیں ہوسکتا اور جس ملک کی اعلیٰ عدالتی اسلامی انصاف کی بجائے محض آئینی انصاف کرتی ہوں اور اس ملک کے نام سے پہلے یا بعد میں اسلامی لگانا اسلام کے تشخص کو مجروح و داغدار کر رہا ہے۔

Imran Changaizi

Imran Changaizi

تحریر : عمران چنگیزی