پاناما کیس ایک ایم این اے کی اہلیت سے بالاتر معاملہ ہے : چیف جسٹس

Asif Saeed Khosa

Asif Saeed Khosa

اسلام آباد (جیوڈیسک) جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ پاناما کیس ایک ایم این اے کی اہلیت سے بالاتر معاملہ ہے ، یہ مقدمہ پوری قوم سے متعلق ہے کیونکہ اس میں فریق وزیر اعظم ہیں۔

جسٹس عظمت سعید کہتے ہیں حقائق متنازعہ ہوں تو بھی عدالت بے بس نہیں ، متنازعہ حقائق پر انکوائری ، حقائق تسلیم ہوجائیں تو فیصلہ ہو جاتا ہے ، تاحال دونوں فریقین کم متنازعہ حقائق دینے میں ناکام ہیں۔

پاناما کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی ۔ مریم نواز کے نام خریدی گئی جائیدادوں کی فہرست اور تاریخ عدالت میں پیش کی گئی تو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا زمین والد نے بیٹی کے نام خریدی تھی ، وزیر اعظم کے وکیل نے بتایا کہ والد نے مریم کے نام اراضی خریدی ، مریم نے بعد میں قیمت ادا کی تو زمین منتقل کر دی گئی۔

جسٹس کھوسہ نے کہا کہ مریم نواز نے والد کو اراضی کیلئے 2 کروڑ 50 لاکھ روپے ادا کیے۔ نواز شریف پر الزام بے نامی جائیداد کی خریداری کا بھی ہے ، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ انکم ٹیکس قانون اور عوامی نمائندگی ایکٹ میں زیرکفالت کی تعریف واضح نہیں ، تعریف متعین ہونی ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ بے نامی جائیداد کی تشریح سپریم کورٹ اپنے فیصلوں میں کر چکی ہے ، اس حوالے سے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی مثالیں موجود ہیں ، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ان فیصلوں میں دونوں فریقین کے درمیان ملکیت کا تنازعہ تھا ، جبکہ اس کیس میں ملکیت کا تنازعہ نہیں ہے ۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ زیر کفالت کا فیصلہ حقائق پر ہی کر سکتے ہیں ، ہماری تشویش زیر کفالت سے متعلق حقائق پر ہے ، ہمیں زیر کفالت کے نہ ہونے پر حقائق پیش کریں۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ مریم نواز مالی طور پر کسی کے زیر کفالت نہیں ، وہ اپنے اخراجات خود برداشت کرتی ہیں ۔ مریم نواز کے زیر کفالت نہ ہونے سے متعلق شاہد حامد بھی حقائق پیش کرینگے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مریم نواز کو جائیداد کی خریداری کیلئے رقم فراہم کی گئی ہے ، خریداری کیلئے رقم فراہم کرنے پر کیا مریم نواز زیرکفالت نہیں ہوگی ، 2011 سے 2013 تک بڑی تبدیلیاں ہوئیں تا کہ وہ زیرکفالت نہ رہیں۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ مریم نواز 2011 سے پہلے بھی مالی طور پر آزاد تھیں، انکے پاس صرف تحائف کی رقم نہیں تھی، آمدن کے دیگر ذرائع بھی تھے، مریم نواز کے چودھری شوگر ملز میں اثاثے ہیں جنہیں دوسرے فریق نے قرضہ بتایا ہے، لندن فلیٹس اور ٹرسٹ ڈیڈ پر متعلقہ وکیل دلائل دیں گے ، ٹرسٹ کے حوالے سے قانون کی درست تشریح عدالت میں پیش نہیں کی گئی،کیا منتخب رکن کونااہل کرنے کیلئے عدالت آرٹیکل 184/3 کے معیار اختیار کریگی۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر کوئی شخص اپنے بھائی کے نام پر جائیداد خریدے تو کیا بھائی اس کے زیرکفالت ہے،وزیراعظم قانون کے مطابق رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، کیا وزیراعظم کے اثاثے چھپانے کے انکشاف پر کیا 184/3 کے مقدمے کو وارنٹو میں تبدیل کر سکتے ہیں؟ رٹ آف کو وارنٹو پر وزیر اعظم کو کیسے نا اہل کیا جا سکتا ہے ، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ قانون میں ایسی جائیداد کو ظاہر کرنا ہوتا ہے ، 20 کروڑ لوگوں کے بنیادی حقوق کو بھی دیکھنا ہوگا۔ پاناما کیس پوری قوم سے متعلق ہے کیونکہ فریق وزیر اعظم ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاناما کیس ایک ایم این اے کی اہلیت سے بالاتر معاملہ ہے ، پاناما کیس میں بات وزیر اعظم کی ہے ، جو پوری قوم کی ترجمانی کرتا ہے ، پاناما کیس عوامی اہمیت کا کیس ہے ۔ یہاں پر معاملہ رٹ آف کو وارنٹو سے بالاتر ہے ۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ہمارے سامنے الیکشن کا معاملہ نہیں ہے ، نواز شریف کے بطور وزیراعظم ہونے کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔

دوسری پارٹی کہتی ہے بعض وجوہات پر نواز شریف رکن اسمبلی نہیں رہے ۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کے اختیار سماعت پر سوال نہیں اٹھا رہا ، اس پر بات کر رہا ہوں کہ 184/3 کے تحت عدالت کس حد تک جا سکتی ہے ، دوہری شہریت کیسز میں اراکین کے جرم تسلیم کرنے پر سپریم کورٹ نے فیصلے دیئے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ ایم این اے سے آگے جا کر عوامی عہدہ رکھنے کا معاملہ بھی دیکھ سکتی ہے ، کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ متنازعہ حقائق پر سپریم کورٹ فیصلہ نہیں کر سکتی؟ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ حقائق متنازعہ ہوں تو عدالت بے بس نہیں۔

متنازعہ حقائق پر انکوائری ، حقائق تسلیم ہوجائیں تو فیصلہ ہوجاتا ہے ، دونوں جانب سے ایسے حقائق مانگ رہے ہیں جو کم متنازعہ ہوں دونوں فریقین ایسے حقائق دینے میں ناکام ہیں۔