پاناما کیس میں وزیراعظم کو عدالت طلب کیا جائے : شیخ رشید

Sheikh Rasheed

Sheikh Rasheed

اسلام آباد (جیوڈیسک) شیخ رشید احمد کے پاناما کیس میں دبنگ دلائل ، قطری خط کو رضیہ بٹ کا ناول اور شہزادہ جاسم کو ریسکیو 1122 قرار دے دیا ، بولے عمران خان ، سراج الحق اور شیخ رشید کا مقدمہ نہیں بلکہ 20 کروڑ عوام کا کرپٹ لوگوں کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ بیٹے نے والد اور والد نے بیٹی کو پیسے دے کر منی لانڈرنگ کی ، نواز شریف حضرت عمر سے بڑے نہیں ، انہیں عدالت طلب کیا جائے۔

پاناما کیس کی سماعت کے دوران شیخ رشید نے کہا کہ یہ عمران خان ، سراج الحق اور شیخ رشید کا نہیں بلکہ 20 کروڑ عوام کا کرپٹ لوگوں کے خلاف کیس ہے ، یہ مقدمہ کرپٹ ، بے ایمان اور دو نمبر لوگوں کے خلاف ہے ، پورا ملک آپ کی طرف دیکھ رہا ہے ، بولے نواز شریف کا وزیر رہ چکا ہوں ، وکالت کا تجربہ نہیں ، غلطی ہو تو معذرت خواہ ہوں ، قطری خط رضیہ بٹ کا ناول ہے۔

شیخ رشید کے دلائل پر کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا جس پر جسٹس عظمت سعید نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سنجیدگی سے معاملہ چلائیں ، عدالت میں بیٹھے لوگ بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کریں ، اگر سنجیدہ نہیں ہوں گے تو عدالت سنجیدہ کرنا جانتی ہے ۔ شیخ رشید نے کہا کہ قطری شہزادہ نواز شریف کیلئے ریسکیو 1122 ہے اور ان کا خط محض ٹشو پیپر ہے۔

قطری خط میں شہزادہ جاسم اپنی یادداشت بیان کر رہا ہے ۔ مقدمہ کے اہم افراد دنیا میں نہیں رہے، ہر کیس کے پیچھے ایک چہرہ ہوتا ہے،اس کیس کے پیچھے سیف الرحمان کا چہرہ ہے، سنی سنائی باتیں کوئی شواہد نہیں ہیں ، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ درست ہے کہ سنی سنائی باتیں کوئی ثبوت نہیں ہیں،، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ کی بات مان لیں توکیا موزیک فونسیکا اور پاناما لیکس سنی سنائی باتیں نہیں؟ آپ تو سٹوڈنٹ لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔

شیخ رشید نے کہا کہ جسٹس عظمت صاحب آپ بھی میرے حلقے کے ووٹر تھے ، جسٹس آصف سعید نے کہا کہ پوچھیں گے نہیں کہ عظمت سعید نے اپ کو ووٹ دیا یا نہیں ۔ شیخ رشید نے کہا کہ وزیراعظم نے گوشواروں میں مریم نواز کو زیر کفالت ظاہر کیا ، نواز شریف نے آف شور کمپنیاں ظاہر نہیں کیں ، رقوم چھپانے کے لیے ماہر لوگوں کی خدمات لی جاتی ہیں ، ایک ارب چالیس کروڑ روپے روزانہ چھاپے جا رہے ہیں ، میرا اپنا کوئی بچہ نہیں یہ 20 کروڑ عوام کے بچوں کا مقدمہ ہے۔

وزیرخزانہ اسحاق ڈار سے اربوں روپے بیرون ملک منتقل ہونے کا سن کر افسوس ہوا ، انہوں نے کہا کہ 1980 میں ایک درہم کی قیمت 2 روپے 60 پیسے تھی ، نیب حدیبیہ پیپرز ملز کیس میں اپیل دائر کرتا تو ہم عدالت میں نہ آتے۔

اس کیس کے لیے جو الفاظ استعمال ہوئے وہ بیان نہیں کر سکتا ، کسی بھی جمہوریت میں جج کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ، مشکل وقت میں جمہوریت کو عدالت ہی بچاتی ہے ، حدیبیہ پیپرز ملز تمام مقدمات کی ماں ہے ، اعترافی بیان پر اسحاق ڈار کے دو دو بار دستخط موجود ہیں،164 کے اعترافی بیان پر لوگوں کو پھانسی چڑھتے دیکھا ہے،حضرت عمر سے ایک شخص نے کرتے کے کپڑے کے بارے میں پوچھ لیا تھا، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حضرت عمر نے یہ نہیں کہا تھا کہ ثبوت دینا الزام لگانے والے کی ذمہ داری ہے۔

شیخ رشید نے کہا کہ قطری نواز شریف کو الیکشن میں بھی سپورٹ کرتے ہیں، التوفیق کیس میں قطری خاندان کا کوئی ذکر نہیں، بینک سے قرضہ لیں تو پوچھا جاتا ہے کہ رہن کی جگہ کس کے نام ہے، اس کیس میں اسحاق ڈارکو شامل تفتیش کریں،،اسحاق ڈار شریفوں کا رشتہ دار ہے اور پہلے ہی مقدمے میں ایک فریق ہے۔

شیخ رشید احمد نے کہا کہ مریم نواز نے ٹرسٹ ڈیڈ پر 2 فروری اور حسین نواز نے 4 فروری 2006 کو دستخط کیے،،، مجھے یقین ہے کہ حسین نواز دستخط گواہ کے سامنے نہیں کیے، سولیسٹر نے بھی دستخط کے ساتھ تاریخ نہیں لکھی، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ یہ ٹرسٹ ڈیڈ نیلسن اور نیسکول کی نہیں ہے، جو ٹرسٹ ڈیڈ آپ پڑھ رہے ہیں وہ قمبر کمپنی کی ہے۔

شیخ رشید بولے کہ اللہ غلطیاں بھی کرواتا ہے، ایمان ہے یہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ہے، ٹرسٹ ڈیڈ پر سفارتخانے کی تصدیق نہیں ہے، مریم نواز کے بینی فیشل مالک ہونے کی دستاویز کسی نے چیلنج نہیں کی، جس رپورٹر نے پناما پیپر کی خبر دی اس کو بلایا جائے، انیس سال کی عمر میں کسی کے بچے کا شناختی کارڈ نہیں بنتا، شریف فیملی کے بچے اربوں پتی بن جاتے ہیں، اس کیس میں 19 سال کی بڑی اہمیت ہے، 12 ملین درہم طارق شفیع نے کس کو دیئے، یہ کہنا غلط ہے کہ 1980 میں دبئی گدھوں پر کام چلتا تھا، اس دور میں بھی وہاں پر 31 بینک کام کر رہے تھے،12 ملین درہم 1993 تک کہاں رہے? جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ 1993 نہیں 2006 تک کہاں رہے? شیخ رشید نے کہا کہ شریف فیملی کی ساری ترقی اقتدار کے دور کی ہے، جدہ مل میں کتنے مسلمان کام کرتے تھے، 20 کے نام بتا دیں، وہاں ہندو کام کرتے تھے۔

بیٹے کا والد کو اور والد کا بیٹی کو پیسے دینا منی لانڈرنگ ہے،،، قطری خط لا کر شریف فیملی نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری،اس ملک کو مجید مستری کے بچوں نے نہیں بڑے لوگوں کے بچوں نے نقصان پہنچایا ہے، جعلی ڈگری چھوٹا جبکہ ملک کا پیسہ لوٹنا بڑا جرم ہے، جسٹس آصف سعید نے کہا کہ بڑے چھوٹے کی بات نہ کریں، ہماری نظر میں سب برابر ہیں،،، جسٹس عظمت سعید نے شیخ رشید کو جذباتی نہ ہونے کا کہا تو وہ بولے شکل سے جذباتی لگتا ہوں لیکن ہوں نہیں۔

شیخ رشیدنے کہا کہ آپ کا فیصلہ ملک میں جمہوریت کو زندہ کرےگا، احتساب ہوگا اور کرپشن کا تابوت نکلے گا، اسرائیلی وزیراعظم سے تحفوں کے معاملے پر پولیس نے تفتیش کی، جمہوریت کو زندہ کرنا ہے پھر کہتے ہیں طالع آزما آ جاتے ہیں، 20 کروڑ عوام کو لوٹنے والا ڈکیت ہوتا ہے، جیب تراش ڈاکو کا ڈکیت سے بڑا فرق ہوتا ہے۔

جسٹس آصف سعید نے شیخ رشید کو سیاسی گفتگو سے روکتے ہوئے کہا کہ مقصد کی طرف آئیں،جس پر شیخ رشیدنے وزیراعظم نواز شریف کو عدالت طلب کرنے کی استدعا کی اور کہا کہ نواز شریف حضرت عمر سے بڑے نہیں ہیں، ہم قانون کی بھینٹ نہیں چڑھ سکتے، عدالت نے کئی معاملات پر ازخود نوٹس لیے، ایک جج کا نام بھی پناما پیپرز میں آیا ہے، سپریم کورٹ پناما پیپرز کا ازخود نوٹس لے،آئین کے آرٹیکل 2 اے ،4 ،18،23،24،25 کی خلاف ورزی کا کیس، شیخ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت کے سامنے درخواستیں آ چکیں ہیں اب ازخود نوٹس لینے کی ضرورت نہیں۔

عدالت نے سمیرا ملک کیس میں صادق اور امین کی تشریح کرنے کی کوشش کی،،، شیخ رشید نے کہا کہ حسین نواز نے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ان کی اور بھی کمپنیاں ہیں، جسٹس آصف سعید نے کہا کہ آپ ہمیں حسین نواز کے ٹی وی انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ دے دیں۔