پانامہ لیکس: تحقیقات کر کے حقائق سامنے لائے جائیں: لاہور ہائیکورٹ بار کی متفقہ قرارداد

 Lahore High Court

Lahore High Court

لاہور (جیوڈیسک) لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے پانامہ لیکس کے معاملہ پر متفقہ قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے جن حکمرانوں اور اشرافیہ کے نام پانامہ لیکس نے آف شور کمپنیوں کے حوالے سے ظاہر کئے ہیں ان کی شفاف تحقیقات کر کے حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں اور یہ تحقیقات کسی ایسے فورم یا ادارے سے کرائی جائیں جن کو عوام کا اعتماد حاصل ہو۔

ہائیکورٹ بار میں محمد آصف شاکر ایڈووکیٹ کی قرارداد کو جنرل ہائوس نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ پانامہ لیکس کے نام سے پوری دنیا میںآف شور کمپنیوں سے متعلق انکشافات ہوئے ہیں۔ جن میں پاکستان کے کاروباری و سیاسی خاندان اور اعلیٰ شخصیات کے نام بھی آئے ہیں۔ جس سے پاکستانی عوام میں بالعموم اور وکلاء برادری میں بالخصوص تشویش پائی جاتی ہے۔

ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے ہر ملکی ایشو پر عوام کی رہنمائی کیلئے اہم رول ادا کیا ہے اور ایک جاندار موقف انکے سامنے رکھا ہے۔ جنرل ہائوس اجلاس کی صدارت صدر لاہور ہائیکورٹ بار رانا ضیا عبدالرحمن نے کی۔ سردار طاہر شہباز خاں انس غازی سید اسد بخاری فنانس سیکرٹری کے علاوہ وکلاء کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

رانا ضیاء عبدالرحمن نے کہا کہ ہائیکورٹ بار کے ممبران چاہے کسی بھی جماعت کا حصہ ہوں ہم بحیثیت وکیل آئین و قانون کی حکمرانی، آئین کی عملداری اور آزاد عدلیہ کے علمبردار ہیں۔

ہمارا کسی سیاسی جماعت یا شخصیت کے خلاف کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ ہم تمام کالے کوٹ والے کرپشن کے خلاف متحد و متفق ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ جن بھی شخصیات کے نام پانامہ لیکس میں ہیں انکے خلاف بلا تفریق تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے قانونی کارروائی کی جائے۔ اجلاس سے محمد انس غازی، احسان‘ جواد اشرف‘ احمد اویس‘ حافظ عبدالرحمن انصاری‘ صاحبزادہ اشرف عاصمی اور اشتیاق احمد چودھری نے خطاب میں کہا کہ حکمرانوں نے غریب عوام کے ٹیکس کی جمع کی ہوئی رقوم لوٹ کر بیرون ملک جمع کی اور 60 فیصد عوام غربت کی لیکر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں‘ عوام کرپٹ، بددیانت اور بدنیت لوگوں کے نرغے میں ہیں۔ جب انتخابات کیلئے کاغذات نامزدگی داخل کئے جا رہے تھے تو آئین کے آرٹیکل 62اور 63کو نظرانداز کرکے کہا گیا کہ فیصلہ عوام پر چھوڑیں۔ آئین کی صریح خلاف ورزی کے مرتکب افراد کی گرفت کی جائے۔

مہذب معاشرہ کے افراد جن کے نام پانامہ لیکس میں ظاہر ہوئے انہوں نے یا تو استعفیٰ دیدیا یا اپنے ملک کے عوام سے سر عام معافی مانگ لی لیکن ہمارے ملک کے متعلقہ افراد نے اپنا جرم قبول کرنے سے گریز کرتے ہوئے ڈھٹائی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انتہائی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وطن عزیز میں غربت کی افریت نے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ جرنیلوں، سیاستدانوں ، بیورو کریٹس اور ججز نے بیرون ملک سرمایہ کر رکھی ہے اور ملک کے پڑھے لکھے نوجوان اور عوام بیروگاری کا شکار ہیں ایسے میں دہشت گردی نہ ہو گی تو کیا ہو گا۔

چیف جسٹس آف پاکستان اور سینئر جج اپنا کردار ادا کریں اگر وہ خود پانامہ لیکس کے حوالہ سے کچھ نہیں کرنا چاہتے تو کم از کم تحقیقاتی ٹیم کو اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کا حکم تو دے سکتے ہیں‘ ملک بھر کے وکلاء نے ڈکٹیٹر کے خلاف جان و مال کی قربانی دی ۔ بال بچوں کے پیٹ کاٹے جیلوں کی صعوبتوں کے علاوہ جان کے نذرانے پیش کئے اور اب بھی عوام کے ساتھ مل کر لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کے خلاف بھر پور کردار ادا کریں گے۔ اجلاس کے دوران مسلم لیگ(ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے وکلاء نے ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کی۔