پانامہ لیکس کے انکشافات، خفیہ دولت، ردعمل اور سرمایہ کاری

Panama Paper

Panama Paper

تحریر: محمد صدیق پرہار
زیادہ وقت نہیں گزرا کہ وکی لیکس کا چرچا ہواکرتا تھا۔اس نے بھی بڑے بڑوں کو بے نقاب کیاتھا۔قارئین کوتہلکہ کالفظ بھی یاد ہوگا۔ تہلکہ کہاں کہاں اورکب کب مچایاگیا یہ سب کچھ اخباروں میں محفوظ ہے۔ اب پانامہ لیکس نے بیک وقت متعدد ممالک کی ان شخصیات کوبے نقاب کیاہے جوٹیکس سے بچنے کیلئے آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کیے ہوئے ہیں۔اخبارات میں شائع شدہ تفصیل کچھ یوں ہے کہ پنامہ پیپرز کو خفیہ دستاویزات کاخزانہ ہاتھ لگنے سے انتہائی رازاداری سے کام کرنے والی غیرملکی کمپنیوں میںملوث پاکستان سمیت دنیاکے متعددمعروف شخصیات کے نام آشکار ہوئے ہیں کئی ملکوں، سیاستدانوں،کاروباری شخصیات بینکرز،ہائی کورٹ کے حاضر اورر یٹائرڈ جج بھی شامل ہیں۔ پاکستانی شخصیات میں بینظیر بھٹو،مریم نواز، حسین نواز،حسن نواز، جاویدپاشا،عبدالرحمان ملک، چوہدری اورسیف اللہ برادران بھی شامل ہیں۔

جبکہ نوازشریف ،شہباز شریف کی براہ راست کسی کمپنی کی ملکیت نہیں تاہم فہرست میںنام شامل ہیں۔اور بتایا گیا ہے کہ شریف خاندان کے ان لوگوںنے لندن کے ہائیڈپارک کے علاقے میں چھ پراپر ٹیز خریدیں جوکہ لندن کامہنگاترین علاقہ ہے۔برٹش ورجن آئی لینڈمیں چارکمپنیز رجسٹرڈ کرائیں اورانہی کمپنیوں کے ذریعے برطانیہ کے پوش علاقے میں چھ مہنگی ترین پراپرٹیزخریدیں۔ کہا جارہا ہے کہ خرچ ہونے والاپیسہ کرپشن کرکے اکٹھا کیاگیاتھا اورٹیکس سے بچنے کیلئے ان کمپنیوںکاسہارالیا۔مقامی جریدے کی رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پرآئی ایس آئی جے کومعلوم ہواہے کہ غیرملکی کمپنیاں چلانے میں آئس لینڈ کے وزیراعظم ،برطانیہ کے وزیراعظم کے آنجہانی والد،آذربائیجان کے صدرکے بچے، سعودی شاہ اورروسی صدرکے قریبی ساتھی جنہوںنے بینکوں اورمتبادل کمپنیوںکے ذریعے ٢ ارب ڈالرکی رقم جمع کی یوکرائنی صدر، چینی صدرکے برادرنسبتی اور دیگر شامل ہیں۔ چار دہائیوں تک یہ ریکارڈ صیغہ رازمیں رہا۔لیکن اب یہ منظرعام پرآچکا ہے۔ماضی میں غیرملکی مقامات کے حوالے سے ہونیوالے مباحثوں کو بھی جلا ملی کیونکہ شکوک کی تصدیق ہوئی۔ان غیرملکی مقامات میں برطانوی جزائرورجن، پانامپ ودیگرشامل ہیں۔ پانامہ میں ایک لاکمپنی موزاک فینسکا کے پاس بین الاقوامی سطح پرغیرملکی موکلات کاریکارڈ ہے۔اس سلسلے میں دوسو پاکستانیوں کی نشاندہی کی جاچکی ہے۔اوریہ گنتی ابھی جاری ہے۔مزید کتنے پاکستانی کتنی لاء فرمز کااستعمال کرکے غیر ملکی کمپنیوں کی ملکیت اپنے پاس رکھتے ہیں اس کااندازہ نہیں حالانکہ اب تک محض ایک ہی کمپنی کاریکارڈ دستیاب ہوا ہے۔

یہ ریکارڈ ١٩٧٧ء سے ٢٠١٥ء تک کاہے ١٩٩٠ء کے ریکارڈ میں پاکستانیوں کانام بھی آناشروع ہوا۔ایسے لوگ جن میں ہندوستان سمیت دیگرممالک کی شخصیات بھی شامل ہیں کالے دھن کوسفیدکرنے کیلئے ایسی کمپنیوں کاسہارالیتے ہیں۔ اور ایسی کمپنیوں کی تعداددولاکھ چودہ ہزارکے قریب ہے۔ تفصیلات کے مطابق دنیامیں دولت بھیجنے کے قانونی طریقے بھی ہیں اورہمارایہ دعویٰ نہیں کہ یہ سب کام غیرقانونی ہے۔آئی سی آئی جے نے ٧٦ ممالک کی سومیڈیا تنظیموں کے ساتھ ان دستاویزات کاتبادلہ کیاجوکہ جرمن اخبارکوکسی نے فراہم کئے تھے۔ان خفیہ فائلوں کی تعدادایک کروڑپندرہ لاکھ تھی۔ایک اورخبریوں ہے کہ دنیاکی چوتھی بڑی لاء فرم موساک فونسیکا نے پانامہ لیکس کے نام سے ایک کروڑ پانچ لاکھ خفیہ دستاویزات جاری کی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ مختلف ممالک کے موجودہ وسابق حکمران، سیاسی شخصیات اورفلمی ستاروںکی جانب سے ٹیکس چھپانے کیلئے کیسے خفیہ دولت بنائی گئی دنیاکے ١٤٣ راہنمائوں میں سے ١٢اعلیٰ حکومتی شخصیات اوران کے خاندان اورعزیزاقارب شامل ہیں۔جنہوںنے خفیہ طریقے سے دولت بنائی ان دستاویزات میںآئس لینڈ کے وزیراعظم کانام شامل ہونے عوام مشتعل ہوکر سڑکوں پرآگئے اور حکومت کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے پارلیمنٹ کا گھیرائو کر لیا۔

Tax

Tax

ادھر آسٹریلیا کے ٹیکس حکام نے آٹھ سوافرادکیخلاف تحقیقات شروع کردی ہیں۔ جبکہ نیوزی لینڈ میں بھی وسیع پیمانے پرتحقیقات کاآغازکردیاگیا ہے۔ادھربھارتی وزیرخزانہ نے خفیہ دولت بنانے والوں کی تحقیقات کیلئے مشترکہ تحقیقاتی گروپ تشکیل دیا ہے۔ پانامہ لیکس کے انکشافات پرآئس لینڈ کے وزیراعظم نے صدرسے پارلیمنٹ تحلیل کرنے کی سفارش کی ہے۔ ماہرمعاشیات گیبرل زکمین کاکہنا ہے کہ پانامہ لیکس کی دستاویزات کے مطابق دنیا بھر کی مختلف شخصیات کی جانب سے بنائی گئی خفیہ دولت کی مالیت ٧ کھرب ٦٠ ارب ڈالر بنتی ہے۔ جودنیاکی تمام دولت کاآٹھ فیصد بنتی ہے اور اس رقم میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پانامہ لیکس میں بینظیرکی جانب سے عراقی صدرصدام حسین کو رشوت دیئے جانے کاانکشاف ہواہے۔دستاویزات کے مطابق سابق وزیراعظم نے شارجہ میںموجوداپنی کمپنی کو تیل کے کنٹریکٹس دینے کیلئے عراقی صدرصدام کورقوم اداکی تھیں۔ ٢٠٠٥ ء میں اقوام متحدہ کی تحقیقات میں دوملین امریکی ڈالرادائیگی کاانکشاف ہواتھا۔٢٠٠٦ء میں نیب کے دعوے کو بینظیر نے مسترد کر دیا تھا۔ پنجاب اسمبلی میں پانامہ لیکس کے انکشافات پرقراردادکی اجازت نہ ملنے پر اپوزیشن نے شدید ہنگامہ اورواک آئوٹ کیا۔اپوزیشن محمودلرشید نے کہا کہ تمام سیاستدانوں کی بیرون ملک موجود دولت واپس لائی جائے۔نیب تحقیقات کرے قراردادآئوٹ آف ٹرن ہونی چاہیے۔

سپیکر کا کہنا ہے کہ قراردادمجھ تک نہیں پہنچی ،راناثناء اللہ کاکہنا ہے کہ ہم اس میں ترمیم چاہتے ہیں پہلے آپ یہ برداشت کریں پھرقراردادپیش کرتے ہیں۔ عمران خان کاکہنا ہے کہ نواز شریف نے منی لانڈرنگ کرکے اپنے بچوںکوپھنسایا نیب تحقیقات کرے ۔پانامہ لیکس سازش نہیں اللہ کی پکڑ ہے ۔وزیراعظم بتائیں پیسہ کیسے آیا اور کیسے باہر گیا مریم نوازنے بھی اصل اثاثے ڈکلیئر نہیں کئے ۔ ادارے وزیراعظم کااحتساب نہیں کر سکتے انہیں بند کر دیا جائے میری باری آئی تو کسی کو نہیں چھوڑوں گا، جیلوں میں ڈالوں گا۔ انہوں نے یہ معاملہ سات اپریل کوپارلیمنٹ میں اٹھانے کا اعلان بھی کیا ہے۔اعتزازاحسن نے کہاہے کہ نیب شریف فیملی کے اثاثوںکی تحقیقات کرے۔ میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے قمرزمان کائرہ نے کہا کہ پنامہ لیکس نوازشریف کیلئے تباہ کن ثابت ہوگا۔وزیراعظم کاپائوں اس شکنجے میں آیا ہے جودوسروں کیلئے تیار کیا گیا تھا۔ سابق وزیراعظم پرویز اشرف کہتے ہیں کہ کرپشن کیخلاف عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں شریف برادران کہتے تھے ہمارے پیٹ پھاڑ کر دولت نکالیں گے اب ان کے پیٹ کون پھاڑے گا۔ ایک انٹرویومیں حسین نوازنے کہا ہے کہ آف شور کمپنیاں محنت کی کمائی ہیں کرپشن نہیں کی پرویزمشرف نے ہمارے ہمارے خلاف بہت کچھ چھان بین کی الزامات لگائے مگروہ غیرقانونی ثابت نہیں کرسکے۔

پانامہ لیکس آنے سے پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ آف شور کمپنیاں ان کی ہیں شریف خاندان نے سیاست سے پہلے کاروبار میں محنت کی کوئی تحقیقات کرناچاہے توشریف خاندان خودکورضاکارانہ طور پر نیب سمیت ہرادارے کے سامنے پیش کرتا ہے۔مریم ہماری آف شور کمپنیوں کی ٹرسٹی ہیں عمران خان کے پاس ثبوت ہیں توسامنے لائیں ثابت ہونے پر سزابھگتنے کوتیارہوں۔آف شور کمپنی برطانیہ اورملکی قوانین کے مطابق غیرضروری ٹیکس بچانے کاایک قانونی طریقہ ہے ۔پاکستان میں بھی قانونی تحفظ حاصل ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ نوازشریف کے صاحبزادوں کے تمام اثاثے حلال ہیں ،پانامہ لیکس نے شریف خاندان کی سچائی پر مہر ثبت کردی ہے۔رپورٹ میں نوازشریف، شہبازشریف کی بیرون ملک کسی جائیداد کا ذکر نہیں بدقسمتی سے شریف خاندان سے الزامات کوجوڑدیاجاتا ہے۔سابق وفاقی وزیرداخلہ عبدالرحمن ملک کا کہنا ہے کہ پانامہ لیکس کی رپورٹ جعلی من گھڑت اورجھوٹ پرمبنی ہے پانامہ لیکس میرے خلاف راکی سازش ہے۔ ایسے الزامات عائد کرکے بینظیراور میری ساکھ کونقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔بینظیربھٹواورمیںنے جلاوطنی کے دنوںمیں پیٹرولائن کاکاروبارقانونی طریقے سے شروع کیاتھا جوبعد میںمالی نقصانات کے باعث بندکردیاگیا۔

PPP

PPP

پیپلزپارٹی نے پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد وزیراعظم سے استعفیٰ کامطالبہ کردیا ہے۔
پانامہ لیکس کی اس رپورٹ یہ بات سامنے آئی ہے کہ سرمایہ چھپانے اور ٹیکس بچانے کامرض صرف پاکستان میں ہی نہیں پایاجاتا دنیاکے دیگرممالک میں بھی پایاجاتا ہے۔اس رپورٹ میں پاکستان سمیت ٧٠ سے زائدممالک کے سیاستدانوں، کاروباری افراد، فنکاروں اور دیگر شخصیات کے بارے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپناخفیہ سرمایہ آف شور کمپنیوں میں لگارکھا ہے۔حسین نواز اور عبدالرحمن ملک نے آف شورکمپنیوں میں سرمایہ کاری سے انکار نہیں کیا۔ حسین نواز کہتے ہیں کہ یہ غیرضروری ٹیکس بچانے کاقانونی طریقہ ہے۔اس کی وضاحت تووزارت خزانہ اور ماہرین معاشیات ہی کر سکتے ہیں کہ غیرضروری ٹیکس بھی ہوتا ہے۔ہم نے غیرضروری ٹیکس کالفظ پہلی بارپڑھا ہے۔ریاست ملک کے مختلف طبقات سے جوٹیکس وصول کرتی ہے کیااس میں کچھ ٹیکس غیرضروری بھی ہوتا ہے۔

ٹیکس بچانا ٹیکس چوری کے زمرے میں آتا ہے اورٹیکس چوری ہمارے ملکی قوانین میں جرم ہے۔ حسین نواز کہتے ہیں کہ یہ غیرضروری ٹیکس بچانے کاقانونی طریقہ ہے گویا برطانیہ اورملکی قوانین ٹیکس بچانے یاچوری کرنے کی بھی اجازت دیتے ہیں۔ البتہ حسین نوازنے کرپشن سے انکارکرتے ہوئے خودنیب سمیت کسی بھی ادارے سامنے پیش ہونے کی پیشکش کی ہے۔عبدالرحمن ملک نے اس رپورٹ کوراکی سازش اور بینظیر بھٹو مرحومہ اوراپنی ساکھ کونقصان پہنچانے کی سازش قراردیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے بعض راہنمائوں نے نیب سے شریف برادران کے خلاف تو تحقیقات کامطالبہ کیاہے تاہم انہوںنے بینظیر مرحومہ اور عبدلرحمن ملک کانام آنے پرکوئی تبصرہ نہیں کیااور نہ ہی نیب سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔پانامہ لیکس کی اس رپورٹ سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ مغربی ممالک میںکس طرح دنیا بھر کا سرمایہ اپنے ہاں جمع کرایاجاتا ہے۔ کس طرح شخصیات کوخوبصورت پیکج دے کران کاسرمایہ اپنے ملک میں لگانے پرآمادہ کرلیاجاتا ہے۔آف شورکمپنیوں میں سرمایہ کے اسباب نہیں پوچھے جاتے اور سرمایہ خفیہ بھی رکھاجاتا ہے۔اب سرمایہ کارکیلئے اس سے بڑی سہولت کیاہوسکتی ہے کہ ان کی دولت محفوظ بھی رہے اور رازمیںبھی رہے۔اسلام اورملکی قوانین جائزذرائع سے دولت کمانے سے نہیں روکتے۔

نہ ہی کوئی یہ حدمقررکی گئی ہے کہ ایک انسان زیادہ سے زیادہ کتنی دولت جمع کرسکتا ہے۔جائز ذرائع سے کمائی گئی دولت سے آپ زکواة، عشر اورریاست کے عائدکردہ تمام ٹیکسزایمانداری سے ادا کرتے ہیں توآپ کی کمائی گئی دولت آپ کیلئے جائز ہوجاتی ہے ۔ آپ اسے جس طرح چاہیں مصرف میں لا سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ جس ذریعہ سے دولت کمارہے ہیں اس میںکام کرنے والوں کو معاوضہ ان کی محنت ،قابلیت کے مطابق بروقت اداکرتے ہیں۔صارفین کی مجبوریوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے، مال تجارت میں عیب نہیں چھپاتے توآپ کی دولت آپ کیلئے حلال ہے۔ اپنے ماتحت کام کرنے والوں کے علاوہ علاقہ، بستی، شہر ،گائوں میں بھی ضرورت مندوں کاخیال رکھنے سے آپ کی دولت میں اضافہ ہوگا۔پانامہ لیکس میں دوسوپاکستانی شخصیات کاانکشاف ہوا ہے کہ انہوںنے آف شورکمپنیوں میں سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ایک طرف حکومت ریاست کانظام چلانے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں سے سخت سے سخت شرائط پر قرضے پہ قرضہ لے رہی ہے دوسری طرف دوسوشخصیات نے آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کررکھی ہے۔آف شورکمپنیوں میں لگایاگیا سرمایہ ملک میں واپس لایا جائے توحکومت کوریاست کانظام چلانے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں کی سخت شرائط برداشت نہیںکرناپڑیںگی۔

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

وزیراعظم بیرون ملک جہاں بھی جاتے ہیں سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں ادھران کے بیٹوں سمیت دوسو پاکستانیوں نے آف شورکمپنیوں میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔غیرملکی سرمایہ کاروںکوپاکستان میںلانے سے بہتر ہے کہ ملک کا جو سرمایہ باہر ہے وہ واپس لایا جائے۔جو سہولیات انہیں وہاں حاصل ہیں وہی سہولیات اپنے ہی ملک میں دی جائیں۔ پاکستان میں اب دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھی کارروائی کی جارہی ہے۔دولت چھپانا جرم ہے تو آف شور کمپنیاں بھی دولت چھپانے اورٹیکس بچانے کی سہولت کار ہیں۔ اس جرم میں یہ برابرکی ذمہ دار ہیں ۔ایسی کمپنیوں کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جودولت چھپانے اورٹیکس بچانے کی سہولت فراہم کر کے دنیا بھر کا سرمایہ اپنے ہاں اکٹھا کرنے کی ترغیب دیں۔پاکستانی سیاستدانوںکوایک دوسرے کیخلاف بولنے سے بہتر ہے کہ ان سہولت کاروں کیخلاف مہم چلائیں جن کی وجہ سے ملک کا کثیر سرمایہ وہاں لگاہوا ہے۔اس رپورٹ کے جاری کرانے کامقصد پاکستان میں راکی کارستانیوں کاپردہ چاک ہونے کے بعد دنیا کی توجہ اس سے ہٹانا بھی ہو سکتا ہے۔

Siddique Prihar

Siddique Prihar

تحریر: محمد صدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com