پٹھان کوٹ واقعے پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا پہلا باضابطہ اجلاس

Pathankot

Pathankot

اسلام آباد (جیوڈیسک)اسلام آباد میں آج پٹھان کوٹ کے واقعے سے متعلق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا اجلاس ہوا۔ اجلاس کے دوران کالعدم تنظیموں کےگرفتار ارکان سے تفتیش میں سامنے آنے والی تفصیلات کا جائزہ لیا گیا۔

اجلاس میں بھارت سے مزید ٹھوس شواہد طلب کرنے اور تحقیقاتی ٹیم بھجوانے کے معاملات بھی زیرغور آئے،یہ سوال سامنے آئے کہ دہشت گردوں کی ڈی این اے رپورٹ کیا بتاتی ہے؟دہشت گردوں کے فنگر پرنٹس کیسے ہیں؟دہشت گرد بھارت کس راستے سے داخل ہوئے؟دہشت گرد کتنا عرصہ پہلے بھارت پہنچے؟کیا مقامی طور پر دہشت گردوں کو معاونت حاصل تھی؟

پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات میں بات کہاں تک پہنچی، گرفتار افراد نے کیا اگلا۔ دہشت گردوں تک کیسے پہنچنا ہے اوربھارت سے کیا تعاون درکار ہے، وزیراعظم کی بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے سر جوڑ لیے۔

پٹھان کوٹ واقعے کے بعد پاکستان کا دبنگ ایکشن اور دبنگ پالیسی سامنے آئی جس میں طے کیا گیا کہ پاکستان کی سرزمین کسی قیمت پر سرحد پاردہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی،اس عزم کے ساتھ پٹھان کوٹ معاملے کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم مل بیٹھی اور اب تک کی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں سے کالعدم جیش محمد کے گرفتار ارکان سے پوچھ گچھ میں سامنے آنے والی تفصیلات پر غور کیا گیا۔اجلاس میں بھارت سے مذید ٹھوس شواہد کی ضرورت، بھارت ٹیم بھجوانے اور اس ٹیم کو بھارت سے درکار معاونت کا بھی جائزہ لیا گیا۔

وزیراعظم کی جانب سے بنائی گئی اس 6رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ رائے طاہر ہیں جبکہ اس میں ایڈیشنل آئی جی صلاح الدین خان اور حساس تحقیقاتی اداروں کے چار ارکان شامل ہیں۔

بھارت میں پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملہ 2جنوری کو ہوا،بھارت نے معلومات پاکستان کے ساتھ شیئر کیں اور کالعدم جیش محمد کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا۔

بھارت کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات پر پاکستان کی سول و ملٹری قیادت نے بھرپور کارروائی کا فیصلہ کیا جس کے بعد کالعدم جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کو حفاظتی تحویل میں لیا گیا اور ایک درجن سے زائد کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ڈسکہ اور بہاولپور میں کالعدم جیش محمد سے منسلک مدارس سیل کر دیے، کئی دفاتر پر چھاپے مارے اور کمپوٹرز اور دیگر مواد قبضے میں لے لیا۔

وزیراعظم میاں نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے معاملے پر بھرپور اندا ز میں آگے بڑھنے کا عزم ظاہر کیا اور تحقیقاتی ٹیم بھارت بھجوانے کا فیصلہ کیا جس کا بھارت نے خیر مقدم کیا ہے۔