صبر و شکر روزے کا مقصد

Ramadan Mubarak

Ramadan Mubarak

تحریر: وقارالنساء
اسلام نے اپنے پیروکاروں کو بڑے خوبصورت ضابطہ حیات دیا اللہ رب العزت نے ہر دور میں انسانوں کی رہنمائی کے لئے اپنے نبی اور رسول بھيجے جو ان کی اخلاق و عادات کو سنوارنے کا کام کرتے رہے اللہ نے رمضان المبارک کا مہینہ برکتوں اور فضیلتوں والا بنایا ار جس کی عبادت کا اجر ستر گناہ کر ديا اور موقع دیا کہ انسان اپنے رب کی خوب دل لگا کر عبادت کرے اور اپنی آخرت کے لئے اپنی نیکیوں میں اضافہ کر سکے اس مہینہ میں جہاں انسان دوسری برائیوں سے بچتا ہے۔

وہاں ايک بہت بڑی خوبی اس ميں پيدا ہو جاتی ہے کہ وہ روزمرہ زندگی ميں صبر اور شکر کو اپناتا ہے –کسی کی طرف سے ملنے والی تکليف پر صبر کسی کے برے سلوک پر صبر کسی رنج اور آزمائش پر صبر بھوک اور پياس پر صبر معاشی حالات کی تنگی پر صبر – اس کے ساتھ اللہ کی نعمتوں کا شکر اور اپنے مقدر پر صابر وشاکر جو اور جتنا اللہ نے ديا اس پر شکر کر کے خود کو اللہ کی بندگی کے لئے ہر وقت اور ہر پل تيار کرنا حسد غروروتکبر غيبت سے بچنے کی تدبير کرنا ہے –صبر ايک ايسی خوبی ہے کہ جس سے ان سب برائيوں سے بچ جاتا ہے۔

قرآن مجيد ميں صبر کا ذکر ستر سے زائد مقامات پر کيا گيا ہے –اللہ نے صابرين کو بلند مراتب کی خوشخبری سنائی ہے انسانی زندگی ميں رنج وراحت اور خوشی غم کا چولی دامن کا ساتھ ہے انسان پر حالات ھميشہ یکساں نہيں رہتے کبھی تنگی ہے تو کبھی فراخی اس گردش زمانہ کامقصدانسان کے صبر کا امتحان لينا ہے تاکہ ديکھا جائے کون عسرت غربت دکھ درد ميں اللہ کو ياد رکھتاہے اور اس کی اطاعت تسليم ورضا پر قائم رہنا ہے اور کون اس سے منہ موڑ کر کفر کی راہ اختيار کرتا ہے نيز فراغت اور صحت کے موقع پر کون آپے سے باہر ہو کر سرکشی کا مظاہرہ کرتا ہے اور کون خدا کی نعمتوں پر شکر ادا کرتے ہوئے ضبر کی راہ پر گمزن ہوتا ہے زندگی کے يہ دونوں پہلو ايک مومن کی آزمائشيں ہيں اس مہينہ ميں اپنے اندر صبر کی عادت کو راسخ کرنے والا اللہ کا مقرب ہو جاتا ہے کيونکہ صبر انبياہ کا شيوہ ہے۔

Allah

Allah

مومن کو جب نعمت ملتی ہے تو وہ شکر کرتاہے اور جب تکليف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور دونوں صورتوں ميں اجر ملتا ہے
آج انسان اپنے مقدر کا گلہ کرتا نظر آتا ہے اور اپنے رب کا شکر گزار کم نظر آتاہے صبر انبياء کا شيوہ ہے –ھمارے نبی آخرت زماں کی زندگی صبر وشکر کا اعلی نمونہ تھی آپ نے دشمنوں کی طرف سے ملنے والی تکليفوں پر صبر کيا اور ہر حال ميں شکر ادا کيا
آج مسلمان ہرچھوٹی تکليف پر بلبلا اٹھتا ہے اور شکوہ کرنے لگتا ہے جب کہ ھمارے انبياء نے ہر تکليف کو برداشت کيا حضرت ايوب صحت کی آزمائش سے گزرے اللہ نے انہيں صابر پايا –ان کی مدح خود اللہ نے فرمائی اور صابر کے لقب سے سرفراز فرمايا –
رسول مقبول ۖسے پوچھا گيا ايمان کيا ہے؟

آپ نے فرمايا صبر وسخاوت -اسی طرح آپ نے فرمايا صبر جنت کے خزانوں ميں سے ايک خزانہ ہے اس مہينہ کی نسبت سے اور اس کے بعد بھی اپنے نفس اور خواہشات پر قابو پانا اور ہر حال ميں صبر کرنا ہی مومن کا شعار ہونا چاہيے اس سے جہاں قوت برداشت کی خوبی پيدا ہوتی ہ وہاں امن واطمينان ملتا ہے وہ اللہ کا قرب اور معيت پا ليتا ہے اسی طرح اجر وثواب ميں کوئی بھی اخلاقی وصف صبر کے ہم پلہ نہيں- اللہ صابرين کا اجر ضائع نہين کرتا اسی ميں مشکات کا حل ہے اور اسی ميں کشائش اور رہنمائی ہے۔

Worship

Worship

صبر جينے کا قرينہ ہے فرب خداوندی کا وسيلہ ہے بلاشبہ صبر ايک کڑوہ درخت ہے ليکن اس کا پھل بہت شيريں ہے صبر کا وصف انسان ميں قناعت استقامت اور استقلال کے اوصاف حميدہ پيدا کر کے اس کی زندگی کو بامقصد بنا ديتا ہے اللہ توفيق دے کہ اس بابرکت مہينے ميں اپنے کردار اور اعمال کی اصلاح کر سکيں تاکہ عبادت اور بندگی کا صحيح حق ادا ہو سکے آمين۔

تحریر: وقارالنساء