صبر و شکر

Praying

Praying

تحریر : صوفیہ کنول
صبر ایک ایسی سواری ہے جو انسان کو کبھی گِرنے نہیں دیتی نہ کسی کے قدموں میں نہ کسی کی نظروں میں صبر ایمان کی پختگی ہے۔کسی بھی پریشانی یا مصیبت میں اس بات پر پختہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالی کی طرف سے اس میں بھی ہماری ہی کوئی مصلحت پوشیدہ ہے اور ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا اور اللہ ہی کی رضا میں راضی رہنا۔صبر کہلاتا ہے دنیا میں ہمیں کوئی بھی پریشانی یا مصیبت پہنچتی ہے تو ہم رونا دھونا اور جذباتی ہو کر اللہ تعالی سے شکوہ شکایتیں شروع کر دیتے ہیں جو غلط ہے اور کسی میت پر اونچی آواز سے رونا دھونا اور واویلے کرنا بھی صبر و استقامت کے برعکس اور ناجائز ہے اور اللہ تعالی نے اس عمل کو گناہ بھی قرار دیا ہے زندگی کے اکثر اوقات میں ہمیں کوئی چیز آچھی لگتی ہے تو ہم صبر کا دامن کھو بیٹھتے ہیں اور کسی بھی جائز نا جائز طریقے سے ہر ممکن اسے پانے کی کوشش کرتے ہیں غریبی بھی اللہ تعالی کی طرف سے صبر کی ایک بہت بڑی آزمائش ہے دنیا میں ہر بلا و مصیبت پر صبر کرنے ،اللہ تعالی پر پختہ ایمان رکھنے اور ہر حال میں اللہ کا شکر کرنے والوں کا قیامت میں اعلیٰ مقام ہے۔

ایک حدیث مبارکہ میں ہے قیامت میں ایک منادی ندا کرے گا۔جس کا قرض خدا تعالی پر ہے وہ حاضر ہو لوگ کہیں گے ایسا کون ہے جسکا قرض خدا پر ہے فرشتے کہیں گے اللہ تعالی نے دنیا میں جس کو بلا و مصیبت میں گرفتار کیا تھا بسبب اس کے دل کو درد پہنچا تھا آنکھوں سے آنسو نکلے تھے تو اس نے فقط خدا پر ہی تکیہ کرکے صبر کیا تھا سو ایسا شخص حاضر ہو خدا اس کا قرضدار ہے تو صابر لوگ حاضر ہوں گے پھر اللہ تعالی شجر طوبیٰ کے سائے میں جسکی جڑ سونے کی اور پتے چاندی کے ہے اور اس کا سایہ اتنا بڑا ہے کہ جس میں سوار سو برس چل سکتا ہے مردانِ صابرین کو کھڑا کروا کر ہر ایک کو اپنی تجلی بخشے گا اور فرمائے گا اے میرے صابر بندوں تمہاری حقارت کے واسطے میں نے تم کو بْلا کر تمہیں گرفتار نہیں کیا۔بلکہ تمہارا مرتبہ میرے نزدیک زیادہ ہونا منظور تھا ۔

اس لئے دنیا کی پریشانی اور مصیبت کے سبب تمہارے تمام گناہ عفو ہوکر تمہارا درجہ اتنا بڑھا جس کو تم عمل صالح سے بھی نہ پا سکتے تھے پس تم نے میرے واسطے صبر وشکر کیا اور مجھ سے حیا کیا اور قضا پر ناخوش نہیں ہوئے اب میں تمہارے اعمال کو نہ تولوں گا اور تم کو اجر و ثواب بے حساب دوں گا بعد حق تعالی اس عورت سے جس نے اپنے شیر خواں بچوں کی موت پر صبر کیا فرمائے گا اے میری بندی تیرے بچوں کی اجل کو اگر لوح محفوظ پر نہ لکھتا تجھے درد نہ دیتا اور تیرے سینہ کو تنگ نہ کرتا تو آج یہ مرتبہ کہاں سے پاتی اب میری خوشنودی ہوئی توں اپنے بچوں کے ساتھ حیات کے گھر میں رہ کر خوشی کر سب اپنا مرتبہ دیکھ کر بہت خوش ہوں گے کوئی بادشاہ ہوگا کوئی وزیر اور کوئی امیر سب گھوڑوں پر سوار ہوں گے اور فرشتے انہیں بہشت کی طرف لے جائیں گے موقف کے لوگ پوچھیں گے۔ایسی عزت و جاہ والے پیغمبر ہیں یا شہید؟فرشتے کہیں گے یہ نہ پیغمبر ہیں نہ شہید بلکہ عوام الناس ہیں جنہوں نے پریشانی و مصیبت پر صبر کیا پس صابر شاداں و فرحاں جنت میں داخل ہوجائیں گے حق تعالی فرماتا ہے خوشخبری دے صبر کرنے والوں کو جب پہنچتی ہے۔

ALLAH

ALLAH

ان کو مصیبت اور دشواری تو کہتے ہیں تحقیق ہم ہیں خدا کے واسطے اور تحقیق ہم اسی کی طرف رجوع کرنے والے ہیں اور مومن جو مصیبت میں خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں ان پر ان کے پروردگار کی طرف سے رحمت اور بہشت ہے ایک اور جگہ لوگوں نے نبی کریم سے پوچھا یا رسول اللہ کونسی چیز میزان کو جھکاتی ہے آپ نے فرمایا صبر پھر پوچھا حساب کونسی چیز تخفیف کرتی ہے فرمایا صبر پھر پوچھا صراط کو کونسی چیز چوڑا کرتی ہے فرمایا صبر ذرا سوچئے صبر ایک کتنا بڑا اعزاز ہے جو دنیا میں ہماری رہنمائی اور آخرت میں ہماری بھلائی کرتا ہے اللہ تعالی نے فرمایا بے شک میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں لہذا ہمیں ہر مصیبت و آفات میں صبر واستقامت کے رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہئے اور ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔

تحریر : صوفیہ کنول

Prayer Walk

Prayer Walk