ضربِ قلم، وقت کی ضرورت

World Literature Conference

World Literature Conference

تحریر : غلام حسین محب
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں عالمی ادبی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک بھر سمیت کئی دیگر ممالک کے ادیبوں اور دانشوروں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا انعقاد ”اکادمی ادبیات پاکستان ”نے کیا تھا۔اس پانچ روزہ کانفرنس کا افتتاح وزیراعظم نواز شریف نے کیا جبکہ اختتامی تقریب میں صدر پاکستان ممنون حسین مہمان خسوصی تھے۔یہ سالانہ ادبی کانفرنس اس بار بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر کئی بار ملتوی ہو کر چار سال بعد منعقد ہوئی۔

اس کانفرنس کی خاص بات تمام پاکستانی زبانوں کا متزاج تھا اور مسلسل سیشن منعقد کر کے مختلف ہالوں میں مختلف موضوعات پر مقالوں اور لکچرز سے لوگ محظوظ اور مستفید ہوتے رہے۔ جبکہ موسیقی میں بھی مختلف رنگ بھرکر پختونخوا،گلگت بلتستان، سندھ، پنجاب اور بلوچستان کی نمائندگی شامل رہی۔اس خوبصورت ادبی کانفرنس کی افتتاحی تقریب کنونشن سنٹر میں ہوئی جس میں وزیراعظم نواز شریف مہمان خصوصی تھے اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین قاسم بوگھیو اور وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی نے بھی خطاب کیا۔ وزیراعظم نے شعرو ادب اور حالات کے مطابق اچھی تقریر کی اور اس میں بعض اہم اعلانات بھی کیے لیکن جو نکتہ یا لفظ سب کے دل کو لگا وہ تھا” ضرب قلم” ۔انہوں نے بجا طور پر کہا کہ ضرب عضب کے ذریعے اگر دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامات کیے گئے ہیںتو شاعرو ادیب اس سے بڑھ کر موجودہ حالات میں کردار ادا کرسکتے ہیں اور وہ ہے قلم کے ذریعے جہاد یعنی ضرب قلم سے ملک میں امن وامان کی بحالی اوربدامنی سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔

ضرب قلم کی بات وزیر اعظم نے موقع محل کے مطابق کی ہرچندکہ یہ بات نئی نہیں کہ قلم نے ہمیشہ انقلابات لانے میں کردار ادا کیا ہے یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں قلم کی قسم کھائی ہے”ن والقلم وما یسطرون” یہ ایک حقیقت ہے کہ قلم ہی ہے جس کے ذریعے موجودہ ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی ممکن ہوئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یورپ ،امریکا اور ترقی یافتہ ممالک قلم کے ذریعے دنیا بھر پر حکمرانی کر رہے ہیں جبکہ پاکستان جیسے ملک میں مولانا صاحبان نے بھی قلم کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں پر راج کیا۔یہ الگ بات ہے کہ ہمارے نوجوانوں کوکیا بنانے کی کوشش کی گئی اور دیگرممالک میں اس کے کیا نتائج سامنے آئے۔

تو ہم بات کر رہے تھے ادبی کانفرنس کی ،اس کانفرنس میں ہمیں بھی بہت کچھ دیکھنے اور سیکھنے کا موقع ملا۔جہاں ایک طرف ہماری پشتو زبان کے نابغہ روزگار شخصیات کے بارے میں سر حاصل مواد سامنے آئے تو وہاں سندھی،بلوچی اور پنجابی ادب کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوئیں۔پشتو ادب کی معروف شخصیات امیرحمزہ شینواری اور محترمہ زیتون بانو پر خصوصی مقالے پیش کیے گئے تو علامہ اقبال سمیت پنجابی،سندھی اور بلوچی زبانوں کی ادبی شخصیات پر نشستوں کا اہتمام کیا گیا تھاجن سے ہمارے علم میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔ان کے علاوہ شام موسیقی کا بندوبست بھی کیا گیا تھاجن میں سے ایک پروگرام لوک ورثہ اسلام آباد میں تھا جہاں مہمانوں کو جوش وخروش دیدنی تھا۔

Qalam

Qalam

اور اس کانفرنس کا مقصد بھی یہی تھا کہ ملک بھر کے اہل قلم اور دانشوروں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملے اور ساتھ ہی موجودہ حالات میں ادب کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں احساس اجاگر کیا جاسکے۔علاوہ ازیں مختلف زبانوں کی قوموں میں احساس محرومی کا خاتمہ اور اپنا موقف آگے لانے کا موقع فراہم کرنا تھا۔لوک ورثہ میں محفل موسیقی فوزیہ بی بی نے منظم اور خوبصورت اندازسے چلایا وہاں موجود کوئی شخص داد دیے بغیر نہ رہ سکااور فنکاروں کے ساتھ ساتھ ا ُن کی پرفارمنس کو سراہا۔اس کے بعداسلام آباد ہوٹل جہاں مسلسل پانچ روز ادبی کانفرنس کی سرگرمیاں جاری رہیں اوریہیں ایک شام موسیقی کے نام بھی کیا گیاتھا جس سے تمام شرکاء نے لطف اٹھایا۔

ایک اہم بات جوقابل غور ہے کہ اس ادبی کانفرنس میں اندھیرنگری اورجنگل راج کا شکار ہونے والے قبائلی شاعروں اور ادیبوں کو شمولیت کی دعوت دی گئی تھی مگر فاٹا کے حوالے سے نہ کوئی سیشن، نہ کوئی مقالہ اور نہ کوئی ذکر خیرہوا۔ایک سیشن میں جب وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی نے اپنا خطاب کیا اور ساتھ ہی کہا کہ ہم حکمرانی کرنے نہیں بلکہ مشاورت اور جمہوری طریقے سے آگے چلنا چاہتے ہیں تو راقم الحروف سمیت کئی لوگوں نے اُن سے سوال کرنا چاہا تو اُن کی نہیں سُنی گئی بلکہ پہلو تہی کی گئی۔وہاں ہم یہی بتانا چاہتے تھے کہ قبائل کو ایک طرف سیاسی اور ریاستی طور پر نظر انداز کیا جاتا رہا ہے انکو ایف سی آر کے رحم وکرم پر چھوڑ کر غیر پاکستانی بنانے کا ظلم ہورہا ہے تو دوسری طرف اہل دانش وادب کے معروف ادارے اکادمی ادبیات کی جانب سے بھی محرومی اور مایوسی کا سامناہے۔ہم چاہتے ہیں کہ قبائلی شعرا کو بھی ان مراعات سے مستفید کیا جانا چاہیے جن کا وزیراعظم نے اعلان کیا۔یعنی ماہانہ اعزازیہ، کتابوں کی اشاعت وغیرہ میں فاٹا کے شاعر ادیب کو بھی حصہ دیا جائے۔سنا ہے کہ اکادمی کی طرف سے فاٹا کے شعراء کے نام پر کنونشن کا انعقاد کیا جائے گاجس میں مذکورہ باتیں زیر غور لائی جائیں گی۔اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو تاکہ قبائلی اہل قلم کی محرومی اور مایوسی کا ازالہ کیا جا سکے۔

دنیا بھر میں میں مایوسی کے بادلوں میں گِھرے لوگ، سائنس و ٹیکنالوجی کے اس چکاچوند دور میں بھی بد امنی اور پریشانیوں کا شکار رہے ہیں ایسے میں سیاسی،سماجی،علمی اور ادبی شخصیات پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کی نبض جاننے اور سمجھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔یہ بات تجربے اور مشاہدے سے ثابت ہے کہ معاشرے کی اصلاح اور ترقی میں اہل قلم کا کرداراٹل اور مسلّمہ ہے۔اس لیے پاکستانی معاشرے میں دینی علماء اور اساتذہ ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

جبکہ تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ شاعر ادیب کا کام نہایت موثّر اور کلیدی ہوتا ہے چاہے وہ شعرو شاعری ہو،ڈرامہ، افسانہ ہو یا ناول قوموں کی ذہن سازی میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام میں بھی معیاری اور مثبت شاعری کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے بلکہ حضرت محمدۖ نے شاعری کو جہاد قرار دیا ہے۔پس معلوم ہوا کہ ضرب قلم کی ضرورت ہر دور اور ہر وقت میںرہی ہے اور وزیراعظم نے ضرب قلم کا ذکر چھیڑ کرمعاشرے کی آنکھ،زبان،اور دماغ یعنی شاعر ادیب کو اس طرف متوجہ کیا ہے۔دراصل انہوں نے ایک روایتی مگر اہم بات کی طرف اشارہ کیا کیونکہ فی زمانہ دنیا بھر میں دہشت گردی اور بدامنی کا ہنگامہ بپا ہے جبکہ پاکستان سب سے زیادہ متاثّر ہونے والا ملک ہے۔ جس کا واحد حل ذہن اور سوچ کی تبدیلی ہے اور یہ قلمی جہاد کے بغیر ممکن نہیں۔اب وقت ہے کہ شاعر ادیب سمیت علماء کرام اور صحافی بھی ضرب قلم کی طرف متوجہ ہوکراپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں۔

Ghulam Hussain Mohib

Ghulam Hussain Mohib

تحریر : غلام حسین محب