مسلسل

ابتر ہوئے جاتے ہیں حالات مسلسل
کب تک یوں سہے جائیں گے صدمات مسلسل

اِس شہر کو کر ڈالے گی غرقاب کِسی روز
نفرت کی ،تعصب کی یہ برسات مسلسل

کچھ لوگ یہاں جنتِ فردا کی ہوس میں
بانٹے ہی چلے جاتے ہیں آفات مسلسل

دِل درد سے بوجھل ہے تیری بزم میں ساقی
مجروح ہوئے جاتے ہیں جذبات مسلسل

مجبور ہیں اِس درجہ تیرے شہرِ سِتم میں
مرنے کی دعا کرتے ہیں دِن رات مسلسل

مفلس ہیں مگر کچھ تو اَنا رکھتے ہیں ساحل
لگتی ہے ہمیں زہر یہ خیرات مسلسل

ساحل منیر