کوئی خوشبو کوئی دھرتی کوئی امبر ہے تاروں جیسا

Shakeel Sagar

Shakeel Sagar

کوئی خوشبو کوئی دھرتی کوئی امبر ہے تاروں جیسا
چاند نہیں پر میرا چاند چاند کے جیسا لگتا ہے
آنکھیں اس کی تاج محل ہیں ہونٹ پھول کی پتی ہیں
گھنگریلے سے بالوں والا روپ کا دریا لگتا ہے
لمبی پلکیں گال گلابی ایک کتابی چہرہ ہے
معصوموں کے شہر کا کوئی رہنے والا لگتا ہے
اتنی نازک جیسے کوئی رنگ برنگی تتلی ہو
لہجہ ایسا ساز سروں میں جیسے چھیڑا لگتا ہے
کوئی رت ہو کوئی موسم ہلکی سی مسکان لبوں پر
اس سے ملکر ہر اک موسم اس کے جیسا لگتا ہے
بات کرے تو لاکھوں پریاں اس کی ادا میں کھو جاتی ہیں
چپ ہو جائے تو سارا عالم ٹھہرا ٹھہرا لگتا ہے
سادگی اس کی جیسے شبنم کھلتی کلیوں پر ہوتی ہے
ساگر ا س کو دیکھ کے ہر کوئی کھویا کھویا لگتا ہے

شاعر: شکیل ساگر