جنرل پرویز مشرف حاضر ہو

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

تحریر : سید توقیر زیدی
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو محروم اقتدار ہوئے آٹھ سال سے زیادہ ہوگئے، مگر خوئے سلطانی میں اب تک مبتلا ہیں۔ انہوں نے اپنی ”آل پاکستان مسلم لیگ” بھی بنائی تھی غالباً ان کا خیال ہوگا کہ جب ان کی مسلم لیگ کے ساتھ ”آل پاکستان” کا سابقہ لگ گیا تو وہ خود کار طریقے سے آل پاکستان لیڈر بن گئے۔ وہ 2013ء کا الیکشن لڑنے کیلئے بڑے دھڑلے سے میدان میں اترے، انہیں خود تو الیکشن لڑنے کیلئے نااہل قرار دیدیا گیا لیکن ان کی جماعت کا ایک اکلوتا امیدوار ہی کامیاب ہوسکا، پھر ان کی دیکھتی آنکھوں وہی نواز شریف دوبارہ وزیراعظم بن گیا، جس کے متعلق انہوں نے سینکڑوں بار اعلان کیا تھا کہ ان کی زندگی میں وہ دوبارہ سیاست میں نہیں آسکتے۔ انہوں نے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو دونوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ سیاست چھوڑ کر کوئی دوسرا کام کرلیں کیونکہ اب پاکستان میں ان کیلئے سیاست ممکن نہیں، لیکن جب وہ خود محروم اقتدار ہوئے تو نہ جانے کیوں اس خیال خام میں مبتلا ہوگئے کہ وہ سیاسی پارٹی بناکر دوبارہ برسر اقتدار آ جائیں گے۔ انہیں صرف اقتدار میں رہ کر ریاستی اداروں کے جبر کے ذریعے سیاست کو کنٹرول کرنے کا تجربہ تھا، آزادانہ سیاست ان کے بس کا روگ نہ تھا۔

ابھی عدالتوں میں ان کا مقدمہ شروع ہی ہوا تھا کہ ان کی طبیعت ناساز رہنے لگی، پہلے وہ پاکستان کے ہسپتالوں میں داخل ہوئے پھر اپنے علاج کیلئے بیرون ملک چلے گئے، علاج تو پتہ نہیں کہیں کروا رہے ہیں یا نہیں، البتہ گوہر افشانیاں ضرور فرما رہے ہیں۔ چونکہ آپ ایک ماورائے آئین اقدام کے ذریعے برسر اقتدار آئے تھے اس لئے انہوں نے اپنے اقتدار کے پورے دور میں آئین کو کوئی اہمیت نہ دی۔ کبھی اسے کلی طور پر معطل رکھا اور کبھی جزوی طور پر، جب انہوں نے چیف جسٹس افتخار چودھری سے کئی دوسرے جرنیلوں کی موجودگی میں استعفا طلب کیا تو انہیں جواب انکار کی صورت میں ملا۔ ان کا خیال تھا کہ دو چار دھمکیاں اور ایک آدھ گالی کے بعد استعفا آوے ای آوے، لیکن یہ ہتھیار بھی کْند ثابت ہوئے، تو جنرل نے طاقت کے ذریعے افتخار چودھری سے نپٹنے کا فیصلہ کیا اور ایمرجنسی لگا دی۔ بطور آرمی چیف خود ہی وہ اختیارات حاصل کرلئے جن کے تحت چیف جسٹس کو غیرآئینی طور پر عہدے سے ہٹا دیا، لیکن پاکستان اور شاید دنیا کی تاریخ میں کوئی برطرف شدہ چیف جسٹس اس طرح بحال نہیں ہوا ہوگا جس شان کے ساتھ افتخار محمد چودھری ہوئے۔

یہ رتبہ بلند ملا، جس کو مل گیا پھر اس نیلے آسمان نے دیکھا کہ جنرل پرویز مشرف محروم اقتدار ہوئے اور جسے انہوں نے محروم اختیار کیا تھا وہ پورے اختیارات کے ساتھ عدالتی فیصلے کرتا رہا۔ اس معاملے اور بحث میں نہیں پڑتے کہ ان فیصلوں میں کتنے درست تھے اور کتنوں پر نقد و نظر کی گنجائش ہوسکتی تھی، کہنا صرف یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ہٹانے والا اب خود اسی عدالت سے مدد کا طالب ہے لیکن ایک آئینی عدالت سے طلب کیا کیا جا رہا ہے؟ وہ کچھ جو یہ دینے کا اختیار نہیں رکھتی یعنی سپریم کورٹ سے وہ تحفہ طلب کیا جا رہا ہے جو اس کے پاس نہیں ہے، لیکن مطالبہ ہے کہ کیا جا رہا ہے اور مسلسل کیا جا رہا ہے۔ جب وہ صدر تھے تو ان کے ماورائے آئین اقدام کے نتیجے میں ”ڈوگر کورٹ” وجود میں آئی تھی، اب وہ صدر تو نہیں رہے لیکن طلب وہی چیز کی جا رہی ہے جو وہ بطور صدر کہتے اور کرتے رہے۔تجزیاتی رپور ٹ بی این پی کے مطابق اس بات میں تو کوئی کلام نہیں کہ آئین کو انہوں نے کبھی کوئی اہمیت نہیں دی۔

Law

Law

کہنے کو تو وہ یہی کہتے ہیں کہ ملک مقدم ہے آئین نہیں، لیکن اس سادگی میں بڑی پْر کاری ہے، یعنی بظاہر ملک کی بہتری کے نام پر آئین کی توہین کی جائے۔ تازہ ارشاد ہوتا ہے کہ ایک عبوری حکومت کو سپریم کورٹ کی مدد سے آنا چاہئے جس کا طریقہ کار یہ ہوکہ سپریم کورٹ آئین میں ترمیم کرکے اس عبوری حکومت کو ایک لمبی مدت مہیا کرے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئین میں چیک اینڈ بیلنس نہیں۔ اب شاعر تو یہ کہہ سکتا ہے اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا، لیکن یہ سادگی ایسی نہیں جس پر مرا جائے بلکہ ضرورت یہ ہے کہ بظاہر اس سادگی میں پوشیدہ پْرکاری کا بھانڈا بیچ چوراہے کے پھوڑا جائے اور اس کے لیے آئین و قانون کے ماہرین میدان میں آئیں اور سابق صدر کو بتائیں کہ آئین میں ان کی من پسند ”لمبی مدت کی عبوری حکومت” کی کوئی گنجائش نہیں، عبوری حکومت صرف الیکشن کیلئے بنائی جاسکتی ہے۔

ہم تو جناب سابق صدر کی خدمت میں اتنی سی گزارش کرسکتے ہیں کہ جب وہ خود صدر تھے اور آئین میں الٹی سیدھی ترمیمیں کر رہے تھے تو ایک ترمیم ایسی بھی کرا لیتے جس سے آئین میں چیک اینڈ بیلنس آ جاتا۔ جب وہ خود ہمہ مقتدر تھے تو کسی چیک اینڈ بیلنس کی ضرورت محسوس نہ کرتے تھے، انہیں رات کو جگا کر کوئی فون سنوایا جاتا تو فوراً ہی امریکی وزیر کے سات کے سات مطالبے مان لیتے پھر کونڈو لیزا رائس کے فون پر این آر او پرتیار ہو جاتے۔

ایک ہی رات میں متعدد بار ان کا فون سنتے اور این آر او کے مسودے میں تبدیلی کرتے، تفصیلات کا یہ محل نہیں، جو حضرات تفصیلات جاننا چاہتے ہیں وہ کونڈو لیزا رائس کی کتاب ”نو ہائر آنر” اور بے نظیر بھٹو کی کتاب ”مفاہمت” پڑھ لیں۔ اب وہ جس ” لمبی مدت کی عبوری حکومت” کی محبت کے اسیر ہیں اس کا خیال انہیں اپنے عہد میں کیوں نہ آیا۔انہوں نے کون سی دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی تھیں جو اب خشک ہوگئی ہیں۔ جس دہشت گردی کا عذاب وہ ملک کے گلے ڈال گئے اسے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں فوج اب تک بھگتا رہی ہے اور اپنے افسر اور جوان مسلسل شہید کرا رہی ہے۔ وہ اگر ایک ہی فون کال پر ڈھیر نہ ہو جاتے تو شاید یہ عذاب بھی گلے نہ پڑتا، لیکن وہ اب تک اسی خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ انہوں نے نہ جانے ملک کوکس طرح کی جنت بنا دیا تھا جو کوئی دوسرا نہیں بنا سکتا۔

Supreme Court

Supreme Court

ان کا خیال ہے لوگ اب تک ان کی ”خدمتوں” کو نہیں بھولے، وہ اگر اپنے لئے لوگوں کی محبت کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں تو ملک کے اندر تشریف لائیں اور بھیس بدل کر سنیں خلقِ خدا انہیں کس طرح یاد کرتی ہے۔ باہر بیٹھ کر سپریم کورٹ کو عبوری حکومت بنانے اور آئین میں ترمیم کے مشورے نہ دیں۔ ملک کا آئین سپریم کورٹ کو نہیں، پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیتا ہے۔ اگر جنرل پرویز مشرف کو آئین میں ترامیم مطلوب ہیں تو پہلے انتخاب جیت کر پارلیمنٹ میں آئیں، دو تہائی اکثریت کی جدوجہد کریں، اکیلے رکن سے کچھ نہیں ہوسکتا۔

ہوسکے تو اْن مجنوؤں کو تلاش کریں جو ان کے دور میں رج کے چوری کھاتے رہے اور ان کے بعد تتر بتر ہوکر یا تو موجودہ حکومت سے مل گئے یا پھر بیرون ملک پدھار گئے۔ باہر بیٹھ کر غیر آئینی مطالبے نہ کریں۔ سپریم کورٹ کو معلوم ہے کہ اس نے کیا کرنا ہے، آپ کے سنہری مشورے کی سپریم کورٹ کو کوئی ضرورت نہیں البتہ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ قومیں وہی سربلند ہوتی ہیں جن کا آئین سربلند ہوتا ہے۔

آپ نے آئین کو پاؤں تلے روندا تھا اور جب اس سلسلے میں آپ کے خلاف مقدمہ چلنا شروع ہوا تو بیمار ہوگئے اور اسی بیماری کے بہانے باہر چلے گئے اور اب اپنے اندر واپسی کی ہمت نہیں پاتے۔ بہتر ہے آپ واپس آئیں اور اپنے اقدامات اور فیصلوں کا عدالتوں میں دفاع کریں اور اگر سپریم کورٹ سے آئین میں ترمیم کرانا چاہتے ہیں تو یہ درخواست بنفس نفیس کریں ویسے آئین میں ترمیم کون اور کیسے کرسکتا ہے یہ سب کچھ اس آئین میں لکھا ہے جو آپ کے خیال میں چیک اینڈ بیلنس سے محروم ہے۔ چینلوں پر بیٹھ کر مشورے نہ دیں آپ کی آل پاکستان مسلم لیگ آپ کی غیر موجودگی میں یتیم ہوچکی ہے کوئی تو اس کی یتیمی ختم کرے۔

Syed Tauqeer Zaidi

Syed Tauqeer Zaidi

تحریر : سید توقیر زیدی