امام شاہ احمد نورانی صدیقی کا فلسفہ سیاست اور نفاذ نظام مصطفی کا ایجنڈر اس دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے، اویس نورانی

JUI

JUI

کراچی : جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا ہے کہ امام شاہ احمد نورانی صدیقی کئی محاذ پر بیک وقت جنگ لڑ رہے تھے، اگر سیاست کے میدان میں دیکھیں تو ابتدا کمیونزم کے خلاف معرکہ آرائی سے ہوئی، پھر لبرلزم و سیکولرز کے ناسور نے معاشرے میں پنپنا شروع کیا۔

پھر قوم پرستی اور لسانیت کی لعنت نے قوم کے وجود کو کھوکھلا کرنا شروع کردیا، یہ معاملہ یہاں نہیں رکا بلکہ پاکستان کے سیاسی میدان میں بانیان پاکستان کو ملک میں حقیقی جمہوریت اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے سب سے بڑی مذاہمت اور رکاوٹ کا سامنا 55سالہ آمریت کے دور سے ہوا، امام شاہ احمد نورانی صدیقی چالیس سال تک آمریت کے خلاف سیاسی و قانونی جنگ لڑتے رہے۔

تبلیغ دین کی ضرورت محسوس ہوئی تو دنیا بھر کے تمام ممالک کا آٹھ بار تفصیلی دورہ فرمایا اور لاکھوں انسانوں کو اسلام قبول کروایا، دنیا میں ہزاروں جامع مساجد او ر مدارس کے ساتھ سینکڑوں اسکول اور کالجز کا قیام عمل میں لے آئے، قادیانیت نے سر اٹھایا تو پوری دنیا میں اس کا تعاقب کیا اور دنیا کے تمام اسلامی ممالک میں قادیانی اور احمدیوں کو آئینی طور پر کافر قرار دلوایا۔

ملک کی تاریخ کے تمام کامیاب ترین سیاسی و مذہبی اتحاد مولانا شاہ احمد نورانی کی کرامت اور خصوصیت تھی، تحریک نظام مصطفیۖ، ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل ان کی دور اندیشی اور قائدانہ صلاحیت کی مظہر ہیں، عالمی حوالے سے وہ عراق و ایران جنگ میں ثالث کا کردار ادارے رہے، عراق کویت جنگ، عراق و سعودیہ جنگ اور دیگر عالمی محاذوں پر صلاح کی بات کرنے والے تنہا امام شاہ احمد نورانی صدیقی تھے۔

افغانستان پر امریکی حملے کے خلاف پہلی عوامی مخالفت اور احتجاج کی کال امام نورانی نے دی، جب عیسائیت کے پاپ نے کہا کہ براعظم افریقہ کو اس صدی میں عیسائی بنادیا جائے گا تو اس وقت امام شاہ احمد نورانی صدیقی نے کہا کہ یہ صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے، انشاء اللہ ہم افریقی براعظم کو مسلمان بنا دینگے، اور آج تعدد کا اندازہ لگایا جائے تو اسلام افریقہ کا سب سے بڑا مذہب اور عیسائیت اقلیت ہے۔

قائد ملت اسلامیہ امام شاہ احمد نورانی صدیقی علہ رحمہ کے عرس کی سالانہ تقریب کے دوسرے روز خطاب کرتے ہوئے جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ امام شاہ احمد نورانی صدیقی کا فلسفہ سیاست اور نفاذ نظام مصطفیۖ کا ایجنڈر اس دور کی سب سے بڑی ضرورت ہے، حضرت کی موجودگی میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں امام نورانی کی طرف دیکھتی تھیں،ان کی حکمت عملی ، سنجیدہ طبیعت اور رعب و دبدبے سے وقت کے آمر بھی کایپ جاتے تھے۔

اس وقت ملک کو حزب احتساب اور حقیقی اپوزیشن کی ضرورت ہے، مولانا نے اپنی زندگی میں سیاسی میدان میں تین عالمی فتنوں کا مقابلہ کیا، جن میں کمیونزم، سیکولرزم اور قادیانزم کے تابوت میں آخری کیل گھاڑ دی ،جب کہ مذہبی حوالے سے نام نہاد روشن خیالی، اظہار خیال کے نام پر مذہب کی بے حرمتی ، تحفظ ناموس رسالت ۖ، سود سے پاک اقتصادی پالیسی ، سود سے پاک بینکاری نظام اور نفاذ نظامی مصطفیۖ کے لئے عملی جدوجہد کی۔

مذہبی حوالے سے چند نا سمجھ لوگوں کی جانب سے دھرنہ سیاست کرنے پر شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ دھرنے کی نام نہاد سیاست اور قوم کو مشتعل اور انتشار کے راستوں میں بھٹی کے کوئلے کی طرح استعمال کرنے والے ایک مثال سے بھی ثابت نہیں کر سکتے ہیں کہ امام نورانی نے چور دروازے کی سازشیں کی ہوں، امام نورانی ہر دور میں جمہوریت کے ساتھ کھڑے رہے اور کبھی آمریت سے ہاتھ نہیں ملایا۔