پی آئی اے کا شہید کو پائلٹ

Ahmed

Ahmed

تحریر : حفیظ خٹک
8 دسمبر کی سہ پہر تھی جب اک خبر بریکنگ نیوز کی صورت میں ٹی وی چینل پر ابھری اور اس کی تفصیل کے بعد پوری قوم درد کی اک مستقل کیفیت سے تاحال گذر رہی ہے۔ چترال سے اسلام آباد کی جانب رواں قومی طیارہ حادثے کا شکار ہو گیا اور اس میں سوار تمام 48 مسافر شہید ہو گئے۔ شہداء میں جہاز کا کپتان،فرسٹ پائلٹ اور کو پائلٹ سمیت عملے کے دیگر اراکین بھی شامل ہیں۔

8برس قبل پی آئی اے کا ایک طیارہ برمنگم سے اسلام آباد کی جانب گامزن تھا۔ اس طیارے کا اک پائلٹ منصور جنجوعہ تھا جو دوران پرواز سینے کی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے اور اسلام آباد پہنچنے کے بعد گھر جانے کے بجائے الشفا ہسپتال جاتا ہے اور پھر وہیں پر ان کی موت واقع ہوتی ہے۔منصور جنجوعہ آج چکلالہ کے قبرستان میں سپرد خاک ہیں۔ان کے ساتھی آج بھی منصور جنجوعہ کو سنہرے الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔

8برس بعد 8دسمبر کو انہی منصور جنجوعہ کا 26سالہ بیٹا احمد منصور جنجوعہ اسی پی آئی اے کے طیارے میں پوسٹنگ کے بعد کو پائلٹ کی حیثیت سے پہلی تربیتی پرواز کے سلسلے میں پائلٹ روم میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہوتے ہیں کہ طیارہ اڑنے کے بعد منزل پر پہنچنے سے پہلے حادثے کا شکار ہو جاتا ہے اور احمد کیلئے یہ پہلی پرواز آخری ثابت ہوجاتی ہے۔ایک بھائی سمیت 5بہنوں میں احمد سب سے چھوٹے ہونے کی وجہ سے سب ہی کا لاڈلا تھا وہ بہت ذہین تھا اور بہادر بھی۔احمد منصور جنجوعہ اب اپنے ایک بھائی اور پانچ بہنوں سمیت اپنے لاپتہ چچا مسعود جنجوعہ، چچی امنہ مسعود جنجوعہ اور سب سے قریب ترین دوست محمد کو چھوڑ کر اپنے والد منصور جنجوعہ کے پاس چلا گیا۔

احمد کے متعلق جب محمد سے بات کی گئی تو وہ شدت جذبات کے باعث کچھ نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ گئے اور ان کی چچی امنہ مسعود جنجوعہ سے بات کی گئی تو یہاں بھی معاملہ محمد ہی کی طرح تھا۔تاہم امنہ مسعود جنجوعہ وہ بہادر خاتون ہیں جو اپنے لاپتہ شوہر کا پتہ لگانے کیلئے گھر کی دہلیز زسے باہر نکلیں۔انہیں شوہر تو نہ مل سکا تاہم ان کی جدوجہد تاحال جاری ہے اور ان کی اس جدوجہد کے باعث 850سے زائدلاپتہ افراد کانہ صرف پتہ چل گیا بلکہ وہ اپنے گھروں کو پہنچ گئے اور ان دنوں وہ اپنی زندگیوں کو بہترین انداز میں گذار رہے ہیں۔

Ahmed

Ahmed

ان کی جدوجہد کے حوالے سے جب بھی ان سے بات کی گئی تو ان کا جواب ہمیشہ یہی رہا کہ مسعود جنجوعہ کی بازیابی تک نہ صرف یہ جدوجہد جاری رہے گی بلکہ تمام لاپتہ افراد کی بازیابی تک جدوجہد جاری رہے گی۔ انسانیت کیلئے ان کی خدمات کی قائل نہ صرف ملک کی عوام،سبھی سیاسی و مذہبی جماعتیں ہیں بلکہ ملک سے باہر کی دنیا میں بھی ان تحریک کو احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔8دسمبر کو بھی انہیں تھائی لینڈ اور تائیوان اعزازات کے حصول کیلئے ہی جانا تھا لیکن جب انہیں طیارے کے حادثے کی اطلاع ملی تو انہوں نے احمد منصور جنجوعہ کے باعث دوروں کو بالائے طاق رکھ دیا۔وہ تب سے اب تلک ان تمام مسافروں کے والدین، عزیز و اقارب کی طرح شہداء کے جسموں کے ملنے اور ان کی نماز جنازہ و تدفین کیلئے پل پل منتظر ہیں۔ انتظار کے یہ لمحے احمد منصور جنجوعہ کے شہر قائد میں گھرانے سمیت امنہ مسعود جنجوعہ اور ان بچوں کو بھی گذارنے پڑ رہے ہیں۔احساسات رکھنے والے ان لمحوں کی شدت کو ہی سمجھ سکتے ہیں۔
امنہ مسعود جنجوعہ نے احمد کے حوالے سے بتایا کہ احمد جنجوعہ ایک ہیرو کی طرح نہایت بہادری سے اک خطرناک صورتحال کا مقابلہ کرتے ہوئے اس دنیا سے چلے گئے۔ احمد،کے والد منصور جنجو عہ جو کہ مسعود جنجوعہ کے بڑے بھائی تھے۔

منصور بھی پی آئی اے میں پائلٹ تھے اور 2008کے دوران پرواز انہیں دل کا دورہ پڑا تاہم انہوں نے اپنی ذمہ داری کواحسن انداز میں نبھایا اور اسلام آباد پہنچنے کے بعد انہیں الشفا ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ دم توڑ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ احمد ان کے بیٹے محمد کا سب سے قریبی اور اچھا دوست تھا وہ ایک سمجھدار اور بہادر نوجوان تھا۔احمد چند ماہ قبل سسر صاحب جو کہ پاک فوج کے ریٹائرڈ کرنل تھے ان کی فوتگی پر آئے تھے۔یہ ان کی پوسٹنگ کے بعد پہلی پرواز تھی۔ اب تک انہوں سے دوران تربیت بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اور ان سے ہمیں بڑی اور اچھی توقعات تھیں کہ وہ ملک و قوم کا نام روشن کرے گا۔ تاہم ایسا نہ ہوسکا ان کا کہنا تھا انہیں احمد سمیت تمام مسافروں کی شہادت پر گہرادکھ پہنچا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ احمد کی خدمات، ذہانت اور بہادری کو ہمیشہ یاد رکھیں گی۔

واضح رہے کہ طیارے کے اس حادثے کے بعد ہمارے ذرائع ابلاغ نے جو کردار ادا کیا اس کے خلاف سوشل میڈیا پر اس کے تاثرات دیکھے جاسکتے ہیں جو کہ منفی کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔48مسافروں میں سے ذرائع ابلاغ نے صرف جنید جمشید کو نمایاں انداز میں دیکھایا جب کہ بعض نجی چینلز جن پر وہ پروگرامات کرتے تھے انہیں اس انداز میں دیکھایا کہ جو دیگر افراد ان کے ساتھ مل کر پروگرام کرتے تھے وہ پورے پروگرام میں اپنے جذبات پر قابو نہ پاتے ہوئے روتے رہے۔شوسل میڈیا پر متعد د نے صرف جنید جمشید کے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کیا انہیں عروج کی بلندیوں پر پہنچایا جبکہ دیگر تمام مسافروں کو اس انداز میں نہ صرف دیکھایا گیا جو کہ قابل مذمت ہے۔

کسی ٹی وی چینل نے یہ نہیں بتایا کہ شہداء میں متعدد گھرانے بھی شامل تھے۔انہی شہداء میں یہ احمد جنجوعہ بھی ہیں جنہیں میڈیا نے نہ دیکھا اور بتا کر قابل مذمت اقدام کیا۔ میڈیا کو اس ضمن میں دیانت کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے چاہئیں، ہر طرح کے دباؤ سے بالاتر ہوکر اور اپنے مفادا ت کو ایک جانب رکھ منافقانہ کردار کے بجائے معاشرے کے چوتھے ستون کا حقیقی کردار ادا کرنا چاہئے۔احمد ہی طرح کی دیگر داستانیں اور بھی ملیں گی اگر ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے انہیں ڈھونڈ نکالیں اور پھر انہیں بہتر انداز میں عوام کے سامنے پیش کریں۔

Amina Masood Janjua Family

Amina Masood Janjua Family

ایسے ہی احساسات پی آئی اے کے ذمہ داران کو بھی نہ صرف درکار ہیں بلکہ ان پر عملدرآمد کی اشد ضرورت ہے۔ ذمہ داروں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ماضی میں ایک دور ایسا گذرا جب پی آئی اے دنیا کی بہترین پرواز ہوا کرتی تھی تاہم آج جو اس کی حالت ہوچکی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔پی آئی اے کے ذمہ داران کی طرح اس وطن عزیز کے ذمہ داران کو بھی چاہئے کہ وہ قومی پرواز پر بھر پور توجہ دیں اور اس کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر عملی اقدامات کریں۔تاکہ آج جس طرح ایک پائلٹ کا بیٹا محنت و مشقت سے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آگے بڑھتا ہے اور بھر پور عزائم کے ساتھ ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہے تو اس کی قطعی دل آزاری نہ ہو اور نہ ہی وہ احمد جیسے کسی حادثے کاشکار ہو بلکہ وہ بھر پور انداز میں اپنی خدمات کے ذریعے ملک و قوم کا نام روشن کرے۔احمد کیلئے تو پہلی پرواز آخری پروز بن گئی تاہم آئندہ ایسے حالات و واقعات سے بچنے کیلئے دیکھنا یہ ہے کہ شعبہ پی آئی اے سمیت حکومت وقت کیا کارہائے نمایاں سرانجام دیتے ہیں۔

تحریر : حفیظ خٹک
hafikht@gmail.com