مسلم لیگ ن نے غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا

 PML N

PML N

کیا ایسا نہیں کہ مسلم لیگ ن نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا؟ آپ اس سے اتفاق کریں یا نہ کریں مسلم لیگ ن مستقبل میں ایک ایسی بحرانی کیفیت سے گزرنے والی ہے جس کیلئے غلطیوں کی گنجائش اب نہیں عمران خان کی تحریک انصاف کی شکل میں ایک طاقتور مزاحمت کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں اور ڈاکٹر طاہر القادری بلین مارچ کا اعلان کر چکے، نظریاتی ورکروں سے جن کی قربانیوں کی تاریخ کااختتام نظر نہیں آتا ایک آمر کی دہلیز پر سجدہ ریزی کے بعد مفاداتی ”اقتداریوں ” کے کہنے پر عہدے چھیننا سیاسی زوال نہیں تو اور کیا ہے؟ اقتدار میں انسان کے گرد ایسے افراد کا حصار ہوتا ہے جن کی جھوٹی خوشامد اُس کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے اُسے وفا کی انتہا نظر نہیں آتی اپنے مفادات کی ذلت کی پستیوں میں کھڑے افراد اسے نظر آتے ہیں اور انہی افراد کو وہ اپنا مسیحا تصور کرتا ہے۔

کیا بشارت رندھاوا کا جرم یہی ہے کہ اُس نے ایک ایسے مفاد پرست فرد کے مدمقابل کھڑا ہونے کی جرات کی جس نے مسلم لیگ ن کے اُن ورکروں کو تختہ ستم بنایا جو مشرف آمریت کے خلاف مسلم لیگ ن کی قیادت کے ساتھ عہد وفاداری نبھاتے ہوئے شاہراہوں پر نکلے؟ جنوبی پنجاب میں بشارت رندھاوا کے فرد کی لاش گری؟ اور عابد انوار علوی جنوبی پنجاب میں نظریاتی ورکروں کے ماتھے کا جھومر ہے مسلم لیگ ن کے ساتھ منسلک وفائوں کے باب میں مشرف آمریت کا جبر جھیلنے والوں میں اُس کا نام آج بھی جنوبی پنجاب میں سنہری الفاظ میں کنندہ ہے۔

اُس کی وفاکی تختی سے میاں نواز شریف کا نام اُس وقت بھی نہ مٹ سکا جب چوہدری پرویز الٰہی نے اُسے پارٹی ٹکٹ اور اقتدار کی لمبی اننگز کھیلنے کی دعوت دی وہ تو ن لیگ کے ساتھ اُس وقت بھی ثابت قدمی سے کھڑا رہا جب مشرف کے ضلعی نظامت کے دور میں وفاداریوں کو ناجائز مقدمات کے ذریعے بدلوایا جارہا تھا جب ایک آمر کے ضلعی نظامت کے دور میں اپنے کندھے پر بیٹھی اقتدار کی فاختہ کو دیکھ کر میاں نواز شریف کے ساتھی خود کو میاں صاحب سے بڑا لیڈر گردان کر آمریت کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے رہے تھے۔

Election

Election

2013 کے الیکشن میں ن لیگ کے جلسوں کو اپنی تقریروں سے گرمانے کا جرم بھی عابد انوار علوی کے کھاتے میں جاتا ہے مجھے شہید کرنل قذافی یاد آرہا ہے جو لیبیا میں امریکی سامراج کے عزائم کی بھینٹ چڑھا خدا کروٹ کروٹ اُسے جنت نصیب کرے اُس نے اپنی کتاب ”گرین بک ” میں لکھا تھا کہ نظریاتی ورکرز سیاست دانوں کے مفادات کا ایندھن ہوتے ہیں اُن کی پارٹی کیلئے قربانیاں جتنی بھی طولانی ہوں اُن کی حیثیت اور اہمیت ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں ہوتی جنہیں استعمال کرنے کے بعد پھینک دیا جاتا ہے جنوبی پنجاب کی سیاسی تاریخ میں آپ 2اپریل 2006 کے سانحہ کو نہیں بھول سکتے جب عوام پر پولیس نے براہ راست فائرنگ کی بشارت رندھاوا اپنی قیادت کی جلاوطنی کیخلاف عوام کی قیادت کرتے ہوئے شاہراہ پر آئے بشارت رندھاوا کے بھتیجے کے سر میں گولی لگی محمد امین کو دل کے قریب جبکہ دیگر دو افراد شبیر اور الطاف بھی پولیس کی گولیوں سے شدید زخمی ہوئے پنجاب بھر میں یہ پہلی مزاحمت تھی جو مسلم لیگ ن کے ایک نظریاتی ورکر بشارت رندھاوا کی قیادت میں ایک آمر کے خلاف اُس وقت ہوئی جب آمریت کا سورج سوا نیزے پر تھا کیا مسلم لیگ ن بشارت رندھاوا کے اُس گھائو کا مداوا آج تککر سکی جو اُسے اپنے بھتیجے کی موت کی شکل میں 2 اپریل 2006 کو مسلم لیگ ن سے وفاداری کی شکل میں لگا۔

عابد انوار علوی کو ضلعی صدارت اور بشارت رندھاوا کوضلعی جنرل سیکریٹری شپ سے ایسے عناصر کے کہنے پر ہٹاناجنہوں نے اقتدار کی خاطر مشرف کے ہاتھ پر بیعت کی اور جب اُس کے اقتدار کا سورج ڈوبنے لگا تو میاں نواز شریف کی چوکھٹ پر ماتھا رگڑا کیا وفائوں کے اِس قتل کو اخلاقی طور پر دیوالیہ پن کانام دینا مناسب نہیں؟ 2013 کے الیکشن میں بشارت رندھاوا کا مسلم ن کے اُمیدوار کے مد مقابل حصہ لینا اُس کے سیاسی کیریئر پر کسی طرح بھی داغ نہیں یہ تو مسلم لیگ ن کے نظریات کو بچانے کی ایک سعی تھی جس میں بشارت رندھاوا نے مسلم لیگ ن سے وابستہ افراد کو مسلم لیگ ن سے ٹوٹنے نہیں دیا وہ چاہتا تو تحریک انصاف کا ٹکٹ لیکر جیت سکتا تھا پنجاب کی تاریخ میں بطور آزاد اُمیدوار 26 ہزار ووٹ لینا کسی ریکارڈ سے کم نہیں وہ تو مسلم لیگ ن کے اُمیدوار کے مد مقابل میدان میں محض اس لیئے اُترا کہ اُس کے دور اقتدار میں مسلم لیگ ن کے نظریاتی ورکروں پر پرچوں کا اندراج ہو تا رہا ،مسلم لیگ ن کے اُمیدوار کے قبضہ گروپ مسلم لیگ ن کے نظریاتی ورکروں کی اراضی بزور اسلحہ اور پولیس چھینتے رہے نظریاتی ورکروں اور ووٹروں کیلئے اُمید کی کرن صرف بشارت رندھاوا تھا اور الیکشن لڑنے پر بھی مسلم لیگ ن کے ان متاثرہ نظریاتی ووٹروں نے ہی بشارت رندھاوا کو مجبور کیا۔

اور آج جن لوگوں کے کہنے پر عابد انوار علوی اور بشارت رندھاوا کے عہدے چھینے گئے انہوں نے اپنی مونچھیں اونچی رکھنے کے زعم میں لاکھوں نظریاتی ووٹروں کے نظریات کو ملیا میٹ کر دیا ہے اور جہاں مفاداتیوں اور خوشامدیوں کی رائے کا قد نظریاتی ورکروں کی رائے سے اونچا ہو جائے وہاں بہتری کی اُمید سراب ہوا کرتی ہے اور پھر بشارت رندھاوا اور عابد انوار علوی جیسے نظریاتی ورکروں کی وہاں کیا حیثیت اور اہمیت ہوگی جہاں حکمرانی کا تصور مغل شہنشاہوں جیسا ہو جو کسی کے سامنے جواب دہ نہ تھے۔

کیا ایسا نہیں کہ مسلم لیگ ن کی قیادت نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا ؟کیا مسلم لیگ ن کی صفوں میں ایسے عناصر کا طوطی نہیں بول رہا جنہوں نے مکارانہ انداز میں اپنی طاقت اور برتری ظاہر کرنے کی ہر جائز اور ناجائز پالیسی قیادت پر مسلط کر رکھی ہے۔

M. R. Malik

M. R. Malik

تحریر : ایم آر ملک