این اے 122 ن لیگ اور پی ٹی آئی کی مقبولیت کا بڑا امتحان

Election

Election

لاہور (جیوڈیسک) حلقے این اے 122 اور اس کے ذیلی حلقہ پی پی 147 کے ضمنی انتخابات حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور تحریک ناصاف کی مقبولیت کا بڑا امتحان ہوگا۔

بظاہر یہاں مقابلہ ن لیگ کے سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور پی ٹی آئی کے علیم خان کے درمیان ہے لیکن حقیقت میں مقابلہ ملک کے دو اہم سیاستدانوں وزیر اعظم نواز شریف اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان میں نظر آ رہا ہے۔

دیکھنا ہوگا کہ گیارہ اکتوبر کو یہاں وزیراعظم نواز شریف کی سیاست کا جادو سر چڑھ کر بولنا ہے یا عمران خان کی سیاست کا ڈنکا بجتا ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ ٹربیونلز کے فیصلوں کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات کے اثرات پاکستانی سیاست پر ضرور ظاہر ہوں گے اور اندازہ کیا جا سکے گا کہ کون کتنے پانی میں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دونوں جماعتوں کی جانب سے ضمنی انتخابات کے حوالہ سے بہت زیادہ سنجیدگی نظر آ رہی ہے اور صرف ان حلقوں میں یہاں کے امیدواروں ، جماعتی ذمہ داروں اور متحرک کارکنوں پر ہی اکتفا نہیں ہو رہا بلکہ عملا ان حلقوں کے حوالہ سے میٹنگز اور مشاورت کا سلسلہ اعلیٰ سطحی قیادت تک وسیع تر ہے۔

رابطہ عوام کے ساتھ وسائل جمع کرنے اور خرچ کرنے کی مہم بھی غیر محسوس انداز میں جاری ہے اور ایک محتاط انداز کے مطابق دونوں جانب سے کروڑوں روپے کے اخراجات ہوں گے۔

این اے 122 اور پی پی 147 خالص طور پر شہری حلقہ ہے جس کے بڑے علاقہ میں اچھرہ ، شادمان، گڑھی شاہو ، سمن آباد، جامعہ اشرفیہ، ملتان روڈ شامل ہیں جبکہ اس حلقہ کی بڑی برادریوں میں ارائیں ، کمبوہ ، کشمیری، جاٹ شامل ہیں۔

مسلم لیگ ن کے ایاز صادق تین بار یہاں سے کامیابی کی ہیٹ ٹرک مکمل کر چکے ہیں ، 2002 اور 2013 میں انھوں نے یہاں سے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو اور 2008ء میں پیپلزپارٹی کے عمر مصباح الرحٰمن کو پچاس ہزار کی شکست دی تھی۔

ان حلقوں میں جماعت اسلامی ، پیپلزپارٹی اور مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک بھی موجود ہے ، دو اہم مدارس جامعہ اشرفیہ اور جامعہ نعیمیہ کی بھی اپنی اہمیت ہے۔

ہر انتخاب میں مدارس اپنا وزن مسلم لیگ ن کے ساتھ ڈالتے رہے ، البتہ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی براہ راست انتخابی عمل میں تو سرگرم نہیں لیکن وقت کے ساتھ اور آنے والے حالات میں دونوں جماعتوں کو اپنے کارکنوں اور خیرخواہوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے حکمت عملی بنانا ہوگی۔