شاعر پشاور ساجد سرحدی

Poet

Poet

تحریر : وسیم شاہد
ہو کا عالم ہے ،جدھر آنکھ اٹھاکر دیکھو اب وہ دریاہے نہ گلشن ہے نہ صحرا باقی ایک لمحے نے اٹھائی وہ قیامت ساجد آنکھ جھپکی تومکیںتھے،نہ مکاں تھا باقی یہ کلام ہے محترم ساجد سرحدی کا۔۔جو ہندکو ،اردوزبان کے بہت بڑے شاعرہیں۔جنہیں انکی خوبصورت شاعری پہ شاعرپشاورکا خطاب ملا۔یہ خطاب ڈاکٹر ظہوراحمداعوان مرحوم نے انہیں عطا کیا تھا۔80سالہ ساجد سرحدی کا صلی نام خادم حسین ہے ہندکو وان ہیں۔جھنڈا بازار پشاور کے رہائشی ہیں۔شاعری انہیں ورثے میںملی۔زمانہ طالب علمی سے شاعری فرما رہے ہیں۔انہوںنے حمد،نعت،غزل،نظم ،قطعات غرض ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔مختلف علمی ادبی محفلوں اور انجمنوںکی جان ہیں ریڈیو ٹی وی سے ایک عرصہ وابستہ رہے۔ٹی وی کے لئے لگ بھگ دوسو گیت لکھے،جو وقت کے مقبول فنکار وںنے پیش کرکے خوب داد وصول کی۔مختلف ادبی محفلوںمیں دیکھے اورسنے جاتے ہیں،ان کے ساتھ اب تک مختلف ادارے شامیں بھی منا چکے ہیں۔

قارئین کرام،سن 2009میںجب ہم نے ایک آواز لگائی تھی کہ زندہ لوگوںکی قدرکریں کسی کی خدمات کے اعتراف اور اس کے کردارکو سراہنے کے لئے اُ س کے مرنے کا ہرگز انتظارنہ کریں۔ہماری خوشی کی انتہا ا س وقت نہیں رہتی جب ہم ایسی کسی شخصیت کے اعزاز میں سجی ہوئی تقریب دیکھتاہوں، ساجد سرحدی حقیقتاً ملنگ طبیعت اور درویش انسان ہیں،شاعر تو وہ بہت بڑے ہیں۔لیکن غرور نام کی کوئی شے اپنے قریب بھٹکنے نہیں دیتے، آج تک ان کے منہ کسی بھی قسم کے بڑے بول سننے کونہیںملے نہ انہیں اپنے طرز عمل میں متکبر پایا۔

اس میںکچھ شک نہیںکہ ہم سب مٹی سے بنے اور مٹی کی خوراک ہیں۔لیکن یہ بات عملی طور پر ہمیں ساجد سرحدی کے مزاج میںملتی ہے۔وہ عجز انکساری کا ایک نادر نمونہ ہے۔ہم جب اس کا کلام پڑھتے یاسنتے ہیںتو ہمیں یہاں بھی وہ کمزور دکھائی نہیںدیتے۔شاعری ہندکو میںہویا اردومیں۔۔کلام نعتیہ ہویا کچھ اور۔اس میں ایک معیار غالب نظرآتاہے۔شاعری تو عطیہ خداوندی ہے،موصوف کاکلام سنتے ہوئے اندازہ ہوتاہے کہ خداوند قدوس ان پہ کچھ زیادہ ہی مہربان ہے۔

ALLAH

ALLAH

اللہ تعالیٰ ان سے ایساکلام کہلوادیے ہیں کہ وہ کسی بھی بلند پایہ شاعر سے کم نظرنہیں آتے۔وہ جب اپنا کلام پیش کررہے ہوتے ہیں تو ان کے الفاظ ان کا لہجہ اور ان کی ادائیگی منفرد اورجداہوتی ہے۔بے شک شاعری، تعلیم کی محتاج نہیں یہ تو عطا کردہ ہے۔جسے حاصل ہوجائے۔لیکن ان کی شاعری میں جو جذبے،بات یا محسوسات ہوتے ہیں وہ انہیں اعلیٰ تعلیم یافتہ ظاہرکرتے ہیں۔حضوراکرم ۖ سے ان کی عقیدت کا اظہار ہو یا ان کے اندر حج کی سعادت حاصل کرنے کی تڑپ،وہ اپنے محسوسات کے بیان میںپورے عروج پہ ہوتے ہیں۔حوالے کے لئے انکے ہندکو کلام کا ایک نمونہ آپ کی نذرکرتاہوں۔
تیری قسمت وچ ساجد مدینہ ننگا
ہک نجومی کڈھ کے میری فال گئیے
ہک حاجی کھجوراں تے زم زم دے کے
اگ ہجر دی سینے وچ بال گئیے

ترجمہ(ایک نجومی نے میری فال نکال کے کہا کہ تیرے نصیب میںمدینہ نہیں ہے،ایک حاجی نے آب زم زم اورکھجوریں بھیج کر مجھے اندرسے تڑپا دیاہے)ان کی شاعری کا شاید یہی وہ مقام تھا جو انہیں عقیدتاً شاعر پشاور کا خطاب دیا گیا۔۔ہوسکتاہے اس خطاب سے ان کی شخصیت محدود کردی گئی ہو۔۔لیکن ان کاکلام ہے اعلیٰ پائے کا ۔۔مجھے یقین ہے کہ ساجد سرحدی صاحب نے اپنی سرحدیں پارکی ہوتیںتو وہ اس سے زیادہ معروف ہوتے۔لیکن اسے اپنی زبان اوراپنی مٹی سے اتنا پیارہے کہ وہ اس ناپ تو ل میں اپنی سرحد پار نہیں کرنا چاہتا۔بقول ان کے ترتیب نہ ہونے کی وجہ سے ان کاکلام شائع نہ ہوسکا۔

اپنے کالم کے ذریعے ان سے دست بدستہ عرض ہے کہ ان کے پاس جو بھی کلام جس حالت میںبھی موجودہے۔وہ گندھارا ہندکو بورڈ کے حوالے کردیں تاکہ وہ شائع ہوکر کتابی شکل میں ڈھل کے ہندکو زبان کے سرمائے میں اضافہ کا موجب بنے۔یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ گندھارا ہندکو بورڈ نے ہندکو اکیڈمی کے قیام سے اب تک کے ڈیڑھ سال میں ڈیڑھ سو کتابیں شائع کی ہیں۔آخر میں ساجد سرحدی کی زندگی کے لئے ڈھیروں دعائوں کا تحفہ۔۔اور قارئین کرام آپ کے لئے ان کے ہندکو کلام کا مزید ایک نمونہ کلام کیسا لگا ۔۔فیصلہ آپ پہ چھوڑتا ہوں۔۔
ھونڑبی وخت ای میاں پشوری سوچ لے آپڑا سودزیان
بال کے امن وامان دے ڈیوے روشن کردے کُل جہان۔

Waseem Shahid

Waseem Shahid

تحریر : وسیم شاہد