پولیس نے لائسنسی اسلحہ اور کونسلر کے بھائی کو حراست میں لے لیا

Wazirabad

Wazirabad

وزیرآباد (تحصیل رپورٹر) سٹی پولیس وزیرآباد نے کونسلر کے ڈیرہ پر چھاپہ مار کر الیکشن ضابطہ کی آڑ میں لائسنسی اسلحہ اور کونسلر کے بھائی کو حراست میں لے لیا، پولیس اہلکاروں کی مبینہ زیادتی کے خلاف پرامن احتجاج کرنے پر پولیس نے فائرنگ شروع کردی میونسپل کمیٹی وزیرآباد کی وارڈ 20سے آزاد امید بابا جاوید مہر کے ڈیرہ پر پولیس نے ریڈ کر کے توڑ پھوڑ کرتے ہوئے دو عدد لائسنسی رائفلیں اور نقدی برآمد کر کے کونسلر کے بھائی منیر کو گاڑی سمیت حراست میں لے کر تھانہ منتقل کر دیا۔جس پر کونسلر کے امیدوار اور اہل محلہ نے پولیس کے خلاف تھانہ سٹی کے باہر شدید احتجاج کرتے ہوئے پولیس سے معاملہ کے متعلق دریافت کرنے کی کوشش کی لیکن مظاہرین سے کوئی ملنے کو تیار نہ تھا۔ تھانہ کے دروازے بند کر دیے گئے اچانک پولیس نے اندھا دھندفائرنگ شروع کر دی بعد ازاں مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور واقعہ کی کوریج کرنے والے صحافی و چیئرمین میڈیا کلب وزیرآبا دمہر فیاض کو حراست میں لے کر شدید تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے حوالات میں بند کر دیاصحافیوں سے لوگوز کیمرے چھین لئے اور ان کی موٹر سائیکلیں بھی تھانہ میں بند کردیں جو واپس نہیں کی گئیں۔ بعد ازاں مسلم لیگ(ن) کے سنیئر رہنما سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن وزیرآباد ادریس سپال ایڈووکیٹ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور انہیںبھی تھانہ کے احاطہ میں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا ۔ پولیس تھانہ سٹی کے اہلکاروں نے بدترین ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے درجنوں پرامن مظاہرین کو ڈنڈوں سوٹوں ،مکوں ٹھڈوں اور اسلحہ کے بٹ مار مار کر انسانیت کی پامالی کی دھجیاں اڑا دیں۔پولیس نے متعدد مظاہرین کو اس وقت بھی حراست میں لے رکھا ہے۔دوسری جانب صحافتی تنظیموں نے پولیس گردی کے خلاف آج شدید احتجاج کرنے کی کال دے دی ہے شہر بھر میں یوم احتجاج منایا جارہا ہے وکلاء نے بدترین پولیس گردی کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ پولیس تھانہ سٹی وزیرآباد نے اپنی عوام کوایسے سلوک کا نشانہ بنایا ہے جیسے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج نہتے شہریوں پر ظلم ڈھا رہی ہیں۔ بارایسوسی ایشن نے پولیس گردی کے خلاف عدالتی امور کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے واقعہ میں پولیس افسران ،ایس ایچ او عرفان ملک اور ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔وکلاء کا کہنا ہے کہ اداروں کو اپنی جاگیر اور عوام کو اپنی رعایا سمجھنے والے دہشت پھیلانے والے، نہتے شہریوں کیساتھ غنڈہ گردی کا مظاہرہ کرنیوالے ریاستی اداروں میں تعیناتی کے اہل نہیں ۔ناجائز گرفتاری پر احتجاج کرنے والوں کی کوریج کرنے والے صحافیوں پر پولیس تھانہ سٹی نے دھاوا بول دیا۔ سنیئر صحافی کودہشت گردی کے جھوٹے مقدمہ میں ملوث کردیا۔صحافی برادری سراپا احتجاج۔ واقعہ میں ملوث پولیس افسران ، ایس ایچ او اور عملہ کو فوری طور پر معطل کرکے کاروائی نہ کی گئی تو احتجاج کا دائرہ کار پورے ملک تک وسیع کردیا جائے گا۔

ملک بھر کی صحافتی تنظیموں کی طرف سے متاثرہ صحافیوں کیساتھ ہمدردی،یکجہتی کا اظہار کیا گیا، پولیس گردی کے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ ۔گزشہ رات پولیس تھانہ سٹی نے مبینہ سیاسی پشت پناہی پر میونسپل کمیٹی وزیرآباد کی وارڈ 20سے آزاد امیدوار بابا جاوید مہرکہ ڈیرہ پر ریڈ کر کے توڑ پھوڑ کرتے ہوئے دو عدد لائسنسی رائفلیں اور نقدی برآمد کر کے کونسلر کے بھائی منیر کو گاڑی سمیت حراست میں لے کر تھانہ منتقل کیا اور اس واقعہ پر جاوید مہر اور ساتھی پولیس اہلکاروں کی مبینہ زیادتی کے خلاف تھانہ کے باہر احتجاج کر رہے تھے جہاں پولیس نے فائرنگ شروع کردی اور سرکل وزیرآباد کے مختلف تھانوں سے پولیس کی بھاری نفری بلا کر درجنوں افراد کو حراست میں لیکر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا ۔واقعہ کی کوریج کرنے والے صحافیوں پر پولیس نے دھاوا بول دیا، لوگو ز کیمرے چھین لئے جبکہ سنیئر صحافی چیئرمین الیکٹرانک میڈیا کلب مہر فیاض احمد فیضی کو حراست میں لیکر وحشیانہ تشددکا نشانہ بنایا اور بعدازاں دہشت گردی کے مقدمہ میں ملوث کرکے ریمانڈ حاصل کرلیا۔، واقعہ کی کوریج کرنے والے صحافی فیاض فیضی کو بھی حراست میں لے کر شدید تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے حوالات میں بند کر دیاصحافیوں سے لوگوز کیمرے چھین لئے اور ان کی موٹر سائیکلیں بھی تھانہ میں بند کردیں جو واپس نہیں کی گئیں۔ بعد ازاں مسلم لیگ(ن) کے سنیئر رہنما سابق سیکرٹری جنرل بار ایسوسی ایشن وزیرآباد ادریس سپال ایڈووکیٹ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور انہیںبھی تھانہ کے احاطہ میں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔

پولیس کے خلاف مظاہرے کی کوریج کرنے والے صحافی کو حراست میں لیکر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعہ کے خلاف وزیرآباد کی صحافی برادری سراپا احتجاج ہے۔مقامی میرج ہال میں جہاں ممبر صوبائی اسمبلی چوہدری شوکت منظور چیمہ،ضلعی صدر مسلم لیگ (ن) گوجرانوالہ مستنصر علی گوندل، ڈی ایس پی وزیرآباد شبیر احمد اور اسسٹنٹ کمشنر وزیرآباد محمد انور بریار ایک سرکاری تقریب میں شریک تھے کا صحافیوں کی طرف سے مکمل بائیکاٹ کیا گیا۔ صحافیوں نے صدر پریس کلب افتخار احمد بٹ کی قیادت میں بازوئوں پر کالی پٹیاں باندھ کرشدید احتجاج کیا اور کہا کہ پولیس نے صحافی کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اور صحافیوں سے لوگو کیمرے چھین کر، جعلی مقدمت بنا کر ریاست کے چوتھے ستون پر حملہ کیا ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ واقعہ میں ملوث افسران ،ایس ایچ او ملک عرفان اور عملہ کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے انہیں نوکریوں سے فارغ کیا جائے۔ مہر فیاض احمد فیضی کے ساتھیوں نے پولیس تھانہ سٹی میں ہونے والے واقعہ کے پیچھے محرکات بارے بتایا کہ تھانہ میں برسوں سے تعینات عملہ کے اراکین جن افراد یا صحافیوں سے رنجش رکھتے ہیںہر نئے آنیوالے افسران کوایسے افراد کیخلاف استعمال کیا جاتا ہے گزشتہ رات کے اس واقعہ میں بھی ایسا ہی ہوا ہے تھانہ کے اندر سے للکارا مارا گیا کہ فیضی کو پکڑ کر اندر لے آئو جس کے بعد پولیس اہلکاروں نے مہر فیاضی فیضی سنیئر صحافی کو اسلحہ کے بٹ مارتے ہوئے اپنی حراست میں لے لیا اور تھانہ کے احاطہ میں20 کے قریب پولیس اہلکاروں نے سنیئر صحافی کووحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔

قانونی کاروائی سے بچنے کی غرض سے پولیس نے صحافی کے خلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔ پولیس گردی کے اس واقعہ کی وجہ سے عوام الناس میں بھی سخت اضطراب پایا جاتا ہے جبکہ پولیس کی طرف سے مسلم لیگ (ن) کے سنیئر رہنما بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکرٹری جنرل ادریس سپال ایڈووکیٹ کو بھی اسی واقعہ میں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس پر بار ایسوسی ایشن میں بھی ایس ایچ او اور عملہ کے خلاف سخت غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ ملک بھر سے صحافیوں کیساتھ اظہار یکجہتی کے پیغامات موصول ہونا شروع ہوگئے ہیں اور پولیس گردی کے خلاف احتجاج کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔