پولیٹیکل سسٹم

Political System of the USA

Political System of the USA

تحریر : محمد شعیب تنولی
میں نے ایک سال پہلے پوسٹ کی تھی کہ اگر کسی کو پولیٹیکل سسٹم اور اس کے معاشرے کے ساتھ لنکیجز کو بہتر طریقے سے سمجھنا ھے تو بجائے پاکستانی نیوز چینلز کے ٹاک شوز دیکھنے کے، امریکی الیکشن کو فالو کرے۔ امریکی الیکشنز میں اب 3 ہفتے سے کم وقت رہ گیا ھے اور دونوں صدارتی امیدواران کی تین لائو ڈیبیٹس بھی ہو چکی ہیں۔ ان ڈیبیٹس سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کی پوزیشن ہیلری کے مقابلے میں بہت مضبوط تھی لیکن پچھلے تین 6 ہفتوں میں سیاسی منظرنامہ کافی بدل گیا۔

پہلی ڈیبیٹ کے اختتام پر ڈونلڈ ٹرمپ پر اس وجہ سے تنقید ہوئی کہ وہ اپنی مخالف کو بات کرتے ہوئے بار بار ٹوک رہا تھا اور جب بھی وہ کوئی دلیل دیتی تو چہرے کے ایکسپریشنز سے مذاق اڑانے کی کوشش کرتا۔ عام طور پر امریکی عوام بحثیت مجموعی اپنے معاشرے میں اس طرح کے غیر مہذب انداز کو پسند نہیں کرتے، اس لئے انہوں نے ٹرمپ کو خود اعتمادی کی کمی کا شکار قرار دیا اور اس کے غیر مہذب رویئے پر ہلیری کو ڈیبیٹ کا فاتح قرار دیا۔

دوسری ڈیبیٹ ایک ٹاؤن ہال کے انداز میں ہوئی۔ اس ڈیبیٹ سے ایک رات پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کی 2005 والی ایک آڈیو ریلیز ہوگئی جس میں وہ اپنے ساتھ بیٹھے ٹی وی کے نمائیندے سے کہہ رہا تھا کہ وہ بطور ایک سیلیبریٹی کے، عورتوں کے ساتھ جنسی استحصال کرسکتا ھے اور کربھی چکا ھے۔ اس آڈیو کے ریلیز ہونے کے بعد ٹرمپ دوسری ڈیبیٹ میں بہت انڈر پریشر نظر آیا، اگرچہ اس نے اپنے الفاظ کی معافی بھی مانگی لیکن امریکی عوام کو اپنے متوقع صدر کا یہ رویہ پسند نہ آیا۔ اسی ڈیبیٹ میں ٹرمپ نے ہیلری کو ایک موقع پر غصے میں کہہ دیا کہ صدر بننے کے بعد وہ ایک سپیشل پراسیکیوٹر مقرر کرکے ہیلری کلنٹن کو جیل میں ڈال دے گا۔ امریکی عوام کو اگریشن کا یہ انداز بھی بہت برا لگا اور انہوں نے اس تقریر میں بھی ہیلری کا فاتح قرار دے دیا۔

Donald Trump and Hillary Clinton

Donald Trump and Hillary Clinton

تیسری ڈیبیٹ پچھلے ہفتے بدھ کو ہوئی۔ اس ڈیبیٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ بہت محتاط ہوکر، تیاری کے ساتھ آیا۔ سب کچھ ٹھیک جارہا تھا کہ ایک موقع پر اس نے ہیلری کلنٹن کو ایک ‘ نیسٹی’ یعنی گندی عورت کا لقب دے ڈالا۔ اسی ڈیبیٹ میں جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ الیکشن کا رزلٹ من و عن تسلیم کرلے گا تو اس نے کہا کہ وہ اس کا جواب رزلٹس دیکھ کر دے گا۔

امریکی عوام کو اپنے متوقع صدر کا یہ رویہ بھی بہت برا لگا۔ ڈھائی سو سال پوانا جمہوری سسٹم چل ہی اس اعتماد پر رہا ھے کہ اس میں دھاندلی نہیں ہوتی لیکن ٹرمپ نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اگر وہ نہ جیتا تو وہ شاید دھاندلی کا الزام لگا دے گا۔ اس سے بھی زیادہ جو بات امریکیوں کو بری لگی وہ ٹرمپ کا ہیلری کو ‘گندی عورت’ کہہ کر مخاطب کرنا تھا۔ اس تقریر میں بھی ٹرمپ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے فوری بعد سوشل میڈیا پر گندی عورت کے حوالے سے ٹرمپ پر تنقید کا طوفان کھڑا ہوگیا۔

میرے دوستو، اگر امریکہ آج طاقتور ھے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ گورے ہیں یا ان کی آبادی 32 کروڑ ھے۔ ان کے طاقتور ہونے کی وجہ ان کے معاشرے کا اپنی اقدار کے ساتھ مضبوطی سے جڑے رہنا ھے۔ اقدار یعنی ویلیوز پر قائم رہنا ہی کسی انسان، ادارے، معاشرے یا ملک کی سلامتی اور ترقی کا ضامن ھے۔اب آپ آجائیں پاکستان کی طرف، مجھے پچھلے دنوں سوئی گیس کے دفتر جانا ہوا، اندر بڑے بڑے بینرز آویزاں تھے جن پر عربی میں لکھا تھا ‘الراشی والمرتشی فی النار’ یعنی رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔

ابھی میں دفتر داخل ہی ہوا تو کچھ ایجنٹ نما لوگ میرے پاس آگئے اور سرگوشی کے انداز میں پوچھنے لگ گئے کہ اگر میں نئے کنیکشن کیلئے آیا ہوں تو 80 ہزار روپے میں ایک مہینے کے اندر اندر کنیکشن لگوا دیں گے۔ میں نے انہیں وہ بینرز دوبارہ پڑھنے کا مشورہ دیا تو وہ منہ جھٹک کر دوسری طرف چلے گئے۔

ہمیں بچپن سے پڑھایا جاتا ھے کہ صفائی نصف ایمان ھے لیکن ہم دنیا کے گندے ترین ملک میں سے ایک ہیں۔ ہماری گلیاں، محلے، پارک، بازار، حتی کہ مساجد کے ساتھ اٹیچڈ ٹوائلٹس گندگی کی اعلی مثالیں نظر آتے ہیں۔ہمیں بڑوں کا احترام، چھوٹوں سے شفقت اور ہمسایوں کا خیال رکھنے کا سبق پڑھایا جاتا ھے لیکن ہم ان میں سے کسی سبق کو بھی فالو نہیں کرتے۔

Politics

Politics

ہمیں دوسروں کے حقوق کا احترام کرنے کا سبق دیا جاتا ھے لیکن جب ہم سڑک پر نکلتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم سے پہلے کھڑے شخص کا پہلے گزرنے کا حق ھے۔ ہم قطار کی پابندی نہیں کرتے، ملاوٹ کرتے ہیں، دھوکہ دیتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، اور یہ سب کچھ کرنے کے باوجود اپنے آپ کو مسلمان اور اسلامی مملکت میں رہنے کا دعوی کرتے ہیں۔جب آپ اپنی ویلیوز یعنی اقدار کی حفاظت نہیں کرسکتے تو پھر آپ کو صبح شام جوتیاں ہی پڑیں گی۔ امریکہ جیسے ممالک ہمیشہ آپ کو اپنے جوتے کی نوک پر ہی رکھیں گے۔ آزمائش شرط ھے!!!

تحریر : محمد شعیب تنولی