احتجاجی سیاست کا موسم

14 August

14 August

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
یوں تو اگست” آزادی” کے مہینے کے طور پر معروف ہے اور ہم 14 اگست کوبڑے جوش و خروش کے ساتھ اپنا یومِ آزادی مناتے ہیں۔ کچھ مَنچلے تو اِسے مادر پدر آزادی سمجھ کروَن ویلنگ کرتے اور گردنیں بھی تڑواتے ہیں لیکن قومی سطح پریہ دِن بہرحال شان و شوکت سے منایا جاتا ہے۔2014ء سے یہ مہینہ کچھ زیادہ ہی آزاد ہو گیا ہے۔

اللہ رکھے ہمارے کپتان صاحب کو، اُنہیںبھی یہی مہینہ احتجاجی سیاست کے لیے ملاہے۔ اب کی باربھی اُنہوںنے اگست ہی میں اپنے احتجاج کااعلان کیااور سونامیوں کے لیے 7 اگست کادِن بھی مقرر کر دیا۔ اُدھر ”سیاسی کَزن” نے بھی کہہ دیا کہ وہ اپنی احتجاجی تحریک کی تاریخ کااعلان 31 جولائی کوکریں گے ۔ ظاہرہے کہ یہ بھی 7 اگست ہی ہوگی۔ دیکھتے ہیںکہ اب کی باربھی امپائرکی انگلی کھڑی ہوتی ہے یامعاملہ 2014ء کے دھرنے کی طرح ”ٹائیں ٹائیں فِش” ہو جاتا ہے۔

ویسے لال حویلی والے صاحب کی آنکھوںکی چمک بڑھ گئی ہے کیونکہ ایسے ہی معاملات میں نیوزچینلز کواُن کی پیشین گوئیوںکی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آجکل وہ کسی نہ کسی نیوزچینل پر براجمان نظرآتے ہیں۔ اُن کی پیشین گوئیوںکو مدّ ِنظر رکھتے ہوئے اب تودوسرے پیشین گوئیاں کرنے والے ٹھیک ٹھیک نشانے لگاتے ہیں ۔ اُن کاطریقۂ واردات یہ ہے کہ جوکچھ لال حویلی والے صاحب کہتے ہیں وہ اُس کے بالکل اُلٹ پیشین گوئی کردیتے ہیںجو بالکل درست ثابت ہوتی ہے ۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی شیخ صاحب جگہ جگہ ” َٹلیاں” کھڑکاکر لوگوںکو خبردار کرتے رہتے ہیں ۔ ویسے اگرشیخ صاحب اپنی لال حویلی کے سامنے ”تھَڑے” پربیٹھ کرفال نکالنے والا طوطا ساتھ رکھ لیں تواُن کا کاروبار چمکنے کی گارنٹی ہم دیتے ہیں۔

Imran Khan Protest

Imran Khan Protest

یوں محسوس ہوتاہے کہ اب کی باربھی سیاسی کزنز ہی مِل کر دھوم دھڑکا کریںگے کیونکہ باقی سب تو ”پھُر” ہوگئے ۔ ابتدامیں تواپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک بڑے زوروںپر تھی اورخیال یہی تھاکہ سڑکوںپر کپتان اوربلاول مِل کر دھمال ڈالیںگے لیکن پتہ نہیںمیاں نوازشریف کے پاس کوئی ”گِدڑسِنگھی” ہے یااپنے کپتان صاحب کی قسمت ہی ایسی ہے کہ ایک ایک کرکے سبھی ساتھ چھوڑگئے لیکن پھربھی کپتان صاحب کاعزم جواںاور وہ اکیلے ہی سڑکوں پرنکلنے کے لیے تیار۔ اُن کے جذبہ وجنوں کودیکھ کرکہا جاسکتا ہے کہ

منزلِ عشق پہ تنہا پہنچے ، کوئی تمنّا ساتھ نہ تھی
ٹھَک تھَک کر اِس راہ میں آخراِک اِک ساتھی چھوٹ گیا

مسندِ اقتدار تک پہنچنے کی ایسی تڑپ ، کَسک، لَگن ، جذبہ ، جنوں اورعشق دیکھا نہ سُنا۔ ویسے اگرہم میاںبرادران کی جگہ ہوتے توخود ہی اقتدار کپتان صاحب کے سپرد کردیتے کہ ہمدردی بھی کوئی شَے ہوتی ہے ۔لیکن وہ توایسا کرنے سے رہے کیونکہ اُنہوںنے ابھی اقتصادی راہداری کو پایۂ تکمیل تک پہنچاناہے ، لوڈشیڈنگ کاخاتمہ کرناہے ، سڑکوںکا جال بچھاناہے اورجگہ جگہ میٹروبَس اوراورنج ٹرین چلاکر رقیبوںکے سینوںپر مونگ دَلنی ہے ۔ اگروہ یہ سب کچھ کرگئے توپھر اگلی باری بھی اُن کی پکّی اوراحسن اقبال توکہتے ہیںکہ وہ 2025ء تک پاکستان کودُنیاکی پچیسویں بڑی اقتصادی طاقت بناکر ہی دَم لیںگے ۔ یہی بات اپوزیشن کوہر وقت بے چین رکھتی ہے اورکپتان صاحب توباقاعدہ تلملاتے رہتے ہیں۔

کپتان صاحب کی تلملاہٹ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خود اُن کے اپنے ہی گھر کے چراغوںسے ایسی آگ بھڑکی کہ اب اُس کے شُعلے ہَر کَس وناکس کوبھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا پرویزخٹک نے توبَرملا کہہ دیاکہ کپتان صاحب جوکام 90 دِنوںمیں کرنا چاہتے ہیںوہ تو 5 سالوںمیں بھی ممکن نہیں۔ پارٹی کے اندر خلفشار کایہ عالم کہ اِس میںکئی گروپ بَن چکے ہیں ۔ چودھری سرور ناراض ہوکر لندن بیٹھ رہے ، شاہ محمود قریشی اور جہانگیرترین کی آپس میںبول چال بند اورخیبرپختونخوا میں پرویزخٹک کے خلاف کم وبیش 12 ارکانِ اسمبلی کا مضبوط گروپ بَن چکا۔ کپتان صاحب نے خٹک صاحب کو کہاتھا کہ وہ ناراض ارکان کومنائیں کیونکہ احتجاجی تحریک شروع کرنی ہے لیکن اُس دبنگ پٹھان نے ٹَکا سا جواب دے دیا۔ پھر چاروناچارعمران خاںکو یہ ذمہ داری جہانگیرترین کوسونپنی پڑی ۔ اِن حالات میں احتجاجی تحریک کا کامیاب ہونا ذرا مشکل ہی نظرآتا ہے۔

Sit

Sit

2014 ء کے دھرنے میں شیخ رشید جیسے مشیروں نے کپتان صاحب کو یقین دلادیا تھا کہ اِدھر وہ اپنا لاؤلشکر لے کر ڈی چوک اسلام آباد پرحملہ آورہوئے اور اُدھر امپائر کی انگلی کھڑی ہوئی ۔ اُس وقت کچھ لوگوںکی اُنہیں آشیرباد بھی حاصل تھی اور ایک ریٹائرڈ جرنیل سے کپتان صاحب کی ملاقاتیں تو زباں زدِعام تھیں ۔ مولانا طاہرالقادری کے مریدین نے احتجاج کی رونق بھی دوبالا کررکھی تھی اورالیکٹرانک میڈیاپر بیٹھے بزرجمہروں کے تجزیوں ، تبصروںنے بھی ایساماحول پیدا کردیا تھاکہ نوازلیگ کے لیے حالات کو کنٹرول کرنا دِن بدن مشکل سے مشکل تَر ہوتا جا رہاتھا لیکن سپہ سالار جنرل راحیل شریف کی جمہوریت کے ساتھ واضح کمٹمنٹ آڑے آئی اورامپائرکی انگلی کھڑی نہ ہوسکی ۔ اب بھی سیاسی اورعسکری قیادت کے ایک صفحے پرنہ ہونے کے تاثر نے کپتان صاحب کوایک دفعہ پھرقسمت آزمائی کی طرف راغب کر دیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ تاثر بھی اُنہی بزرجمہروں کاپیدا کردہ ہے جو 2014ء میںچائے کی پیالی میںطوفان اُٹھارہے تھے ۔ حقیقت یہی کہ محترم سپہ سالارکی آج بھی جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ میں کوئی کمی نہیںآئی اورنہ ہی سیاسی وعسکری قیادت میں سَردمہری کاکوئی تاثر پایا جاتا ہے۔ بفرضِ محال فوج اقتدارپر قبضہ کرنے کی ٹھان لیتی ہے (جس کا دُور دُور تک کوئی امکان نہیں) توپھر بھی کپتان صاحب کے ہاتھ تو کچھ نہیںآئے گا اورمنزل اُن سے کوسوں دُورچلی جائے گی۔ اپوزیشن کی دوسری جماعتوںنے تواِس کاادراک کرلیا ۔ اِسی لیے وہ کپتان صاحب سے الگ کھڑی نظرآتی ہیں لیکن کپتان صاحب توفوج کے آنے پرمٹھائیاں بانٹنے کے چکرمیں ہیں۔

کپتان صاحب کے لیے ترکی کی ناکام بغاوت بھی تازیانے سے کم نہیں۔ اُدھر کپتان صاحب کافوج کے آنے پرلوگوںکے مٹھائیاں بانٹنے کابیان سامنے آیا اوراِدھر ترکی کے نہتے عوام نے فوجی ٹینکوںکے سامنے لیٹ کراُس بغاوت کوناکام بنادیا جس کی پُشت پرلَگ بھَگ ڈیڑھ سو جرنیل ، فوج اورپولیس کے ہزاروںجوان اورکئی ادارے شامل تھے ۔ پاکستان میںشاید ہی کوئی شخص ایسا ہوگا جس نے ترکی کی اِس عوامی قوت کوتحسین کی نگاہ سے نہ دیکھاہو ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آزادکشمیر کے انتخابات میںکپتان صاحب کوبُری ہزیمت کاسامنا کرناپڑا اورمیاں نوازشریف صاحب نے بھی ہنستے مسکراتے کہہ دیاکہ 2 سیٹوںوالے بھلا کیا دھرنا دیںگے ۔ احتجاج کپتان صاحب کاحق ہے لیکن اُنہیں یہ توسوچ لینا چاہیے کہ کیااِس کے لیے حالات بھی سازگار ہیں۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر