ناقص پالیسیاں اور نظام ٹیکسٹائل برآمدات میں کمی کی وجہ ہیں

Textile

Textile

اسلام آباد (جیوڈیسک) ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل انڈسٹری نے رائج پالیسیوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ناقص پالیسیوں اور نظام کے باعث پاکستان کے حریف ممالک کی ٹیکسٹائل برآمدات تیزی سے بڑھ رہی ہیں جبکہ عالمی تجارت میں پاکستان کا حصہ گزشتہ 5سال میں 2.2 فیصد سے کم ہو کر 1.8 فیصد پرآگیا ہے۔

عالمی بینک کی پالیسی سفارشات کا حوالہ دیتے ہوئے انڈسٹری کے نمائندوں نے طویل دورانیے سے زیرالتوا اربوں روپے مالیت کے سیلز ٹیکس ریفنڈز، کسٹمز ری بیٹ، ڈی ایل ٹی ایل کے کلیمز فی الفورادا کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ٹیکسٹائل پالیسی 2014- 19 پر عملدرآمد کا آغاز کیا جائے، بجلی و گیس تسلسل سے فراہم کی جائے، سرمایہ کاری سپورٹ اسکیموں کا آغاز، اسمگلنگ کی لعنت پر قابو پانے اورانڈر انوائسنگ کوجڑسے اکھاڑ پھینکا جائے۔

پاکستان اپیرل فورم کی جانب سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل سیکٹر کے مسائل، مشکلات اور ان کے حل پرمبنی مختصر رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ کپاس کی پیداوار میں دنیا کا چوتھا سرفہرست ملک ہونے کے باوجود پاکستان ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل مصنوعات کے حوالے سے عالمی مارکیٹ میں اپنے حریف ممالک چین بھارت اور بنگلہ دیش سے پیچھے رہ گیا ہے، عالمی بینک کے تخمینے کے مطابق اپیرل (ملبوسات) کی عالمی تجارت سال 2020 تک 1.18 کھرب ڈالر اور سال 2025 تک 2.11 کھرب ڈالر تک پہنچ جائے گی لیکن ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل کی عالمی تجارت میں پاکستان کی حیثیت افسوسناک حد تک کمزور رہنے کے خدشات قائم ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملکی جی ڈی پی میں ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل سیکٹر کا حصہ 8 فیصد ہے۔

شہری علاقوں میں اس شعبے کی روزگار کی شرح 42 فیصد اور مجموعی ملکی برآمدات میں حصہ57 فیصد ہے جس سے اس شعبے کی اہمیت وافادیت کا درست اندازہ لگایا جاسکتا ہے، پاکستان اپیرل فورم کے نمائندے طویل عرصے سے یہ باور کراتے چلے آرہے ہیں کہ مذکورہ اعداد و شمار اس سیکٹر کی اہلیت ودستیاب مواقع کے اعتبار سے انتہائی کم ہیں، ہم انہیں انتہائی بلندی کی سطح پردیکھ رہے ہیں۔

سال 2005 سے 2013 کے دوران پاکستانی ٹیکسٹائل واپیرل کی مجموعی برآمدات کی شرح افزائش 3.6فیصد رہی ہے، بھارت کی مجموعی برآمدات کی شرح 11.3 فیصد اور بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل اور اپیرل کی مجموعی برآمدات کی شرح 16.2 فیصدریکارڈ کی گئی ہے۔

اسی مدت میں پاکستان میں کپاس کی ہر 10 لاکھ گانٹھوں کی ویلیو ایڈیشن کی مالیت 1.17 ارب ڈالر، بھارت میںہر 10 لاکھ گانٹھوں کی ویلیو ایڈیشن 1.79 ارب ڈالراوربنگلہ دیش میں کپاس کی ہر 10 لاکھ گانٹھوں کی ویلیو ایڈیشن کی مالیت 6 ارب ڈالر رہی، سال 2005 سے 2013 کے دوران پاکستان میں پاور ٹیرف 0.15 ڈالر فی کلوواٹ آور رہا ہے جو مذکورہ تینوں حریف ممالک سے زیادہ ہے کیونکہ بھارت میں پاورٹیرف 0.13 ڈالر فی کلوواٹ آور اوربنگلہ دیش میں پاورٹیرف 0.09 ڈالر فی کلوواٹ آورہے، پاکستان میں گیس ٹیرف 6.27 ڈالرفی ایم ایم بی ٹی یو ہے جو مذکورہ تینوں حریف ممالک میں سب سے زیادہ ہیں کیونکہ بھارت میں گیس ٹیرف 4.66ڈالرفی ایم ایم بی ٹی یو ہے اور بنگلہ دیش میں گیس ٹیرف 1.86 ڈالرفی ایم ایم بی ٹی یو ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ہفتے کے 7 ایام میں 24 گھنٹے بجلی کی عدم دستیابی کے باعث پاکستان کی پیداواری استعداد کے مقابلے میں پیداوار 70 فیصد ہے جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش میں 90 ، 90 فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کارپوریٹ ٹیکس کی 34 فیصدشرح خطے میں سب سے زیادہ ہے جبکہ بھارت میں یہ شرح25فیصد اوربنگلہ دیش میں27.5 فیصد ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں بتایا گیاکہ سال 2008 سے 2013 تک پاکستان میں مشینری انویسٹمنس افسوسناک حد تک کم رہی ہے اوراس دوران پاکستان نے 1320شٹل لیس لومز اور 10 لاکھ 20 ہزار 700 اسپنڈلز کا اضافہ کیا جبکہ بھارت نے اس عرصے میں 36 ہزار 410 شٹل لیس لومز اور ایک کروڑ 40 لاکھ اسپنڈلز کا اضافہ کیا جبکہ 50 لاکھ اسپنڈلز پائپ لائن میں ہیں، بنگلہ دیش نے اس عرصے میں 22 ہزار 370 شٹل لیس لومز اور 19 لاکھ 87 ہزار اسپنڈلز کا اضافہ کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیاکہ پاکستان خطے کاواحد ملک ہے جس کی کرنسی کی قدر میں 2013 سے 2015 کے دوران 5 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اس مدت میں بھارت کی کرنسی کی قدر میں2.7 فیصد اوربنگلہ دیش کی کرنسی میں صرف 0.7 فیصد کا اضافہ ہوا۔

خطے میں صرف پاکستان اس شعبے کو ٹیکسوں میں کوئی سبسڈی فراہم نہیں کررہا، سرمایہ کاری میں شرح سود کا تعاون بھی نہیں، ایکسپورٹ زیرو ریٹنگ نہیں، کیپٹل سپورٹ بھی نہیں اور نہ ہی طویل المیعاد پالیسی کی سپورٹ دی جاتی ہے جبکہ اسکے برعکس بھارت میں ٹیکس سبسڈی کے علاوہ سرمایہ کاری میں شرح سود کی سپورٹ، کیپٹل سپورٹ، کلسٹر ڈیولپمنٹ اسکیمز اور طویل المیعاد پالیسیوں میں اس شعبے کو سپورٹ دی جارہی ہے اور بھارتی برآمد کنندگان کو 11 فیصد کی شاندار سپورٹ بھی حاصل ہے جبکہ بنگلہ دیش میں ٹیکس سبسڈی کے علاوہ سرمایہ کاری میں شرح سود کی سپورٹ،کیپٹل سپورٹ، کلسٹر ڈیولپمنٹ اسکیمز اور طویل المیعاد پالیسیوں میں سپورٹ دی جاتی ہے اوربنگلہ دیش کے برآمدکنندگان کو 10 فیصد سبسڈی دی جاتی ہے۔

رپورٹ میں حکومت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ ’’نوپیمنٹ نو ریفنڈ‘‘ سسٹم نافذ کر کے ایف بی آراوربرآمد کنندگان کے وقت کو ضائع ہونے سے بچائے، ٹیکسٹائل سیکٹر کو پیداواری سطح پر زیرو ریٹ، صرف مقامی فروخت اور ریٹیل کی سطح پرسیلز ٹیکس وصول کیا جائے، گیس ٹیرف اسٹرکچر میں ٹیکسٹائل سیکٹرکے لیے علیحدہ ٹیرف متعارف کرایا جائے اور جی آئی ڈی سی کے نفاذ کو روک دیا جائے، پاورٹیرف خطے کے حریف ممالک کی نسبت یکساں کرتے ہوئے علیحدہ ٹیرف اسٹرکچرمتعارف کرایا جائے، زیرالتوا سیلز ٹیکس، کسٹمز ری بیٹ اور ڈی ایل ٹی ایل کے تمام کلیمز کی فی الفور ادائیگیاں کی جائیں۔

برآمدی خام مال کی فرنٹ لوڈنگ فوری طور ختم کی جائے، تمام ضروری یوٹیلٹیز کی فراہمی میں ٹیکسٹائل سیکٹر کو ترجیح دی جائے، فنانس بل میں ٹیکس افسران کو دیے گئے صوابدیدی اختیارات پر نظرثانی کی جائے۔

حریف ممالک سے مسابقت کے چیلنجز سے نمٹنے کیلیے ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے طویل المیعاد پالیسی کی تشکیل کیلیے وفاقی حکومت سے تسلسل سے ملاقاتوں کے ایک سلسلے کا اہتمام کیا جائے، اگران سفارشات پر عمل درآمد کیا گیا توویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا دعویٰ ہے کہ آئندہ 3 سال کے دوران ملکی برآمدات میں کم از کم 50 فیصد کااضافہ ہوجائے گا جس سے پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ اور تجارت سرپلس ہو جائے گی۔