غریب کی آہ

Poor Woman

Poor Woman

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
میں جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا بدبو کا زور دار جھو نکا آکر میری ناک اور پھیپھڑوں کو جلاتا چلا گیا، بدبو کیا بول براز گوشت کے جلنے سڑنے اور انتہائی بدبو دار تعفن نے ہوا کو خراش دار بنا دیا تھا، اب مجھے سمجھ آئی کہ میرے ساتھ آنے والے نے اپنے منہ پر ماسک کیوں چڑھا یا تھا، آنیوالے نے مجھے بھی ماسک پیش کیا تھا، کہ مریض کے پرانے زخم اب بدبو دار ناسوروں میں تبدیل ہو چکے ہیں، مریض کی خوفناک خارش نے اُس کا جسم ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ خارش کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے، کہ ہمیں مریض کے ہاتھ باندھنے پڑتے ہیں اور روزانہ مریض کے ناخن کاٹنے پڑتے ہیں ہم مریض کے پاس کوئی چھری کانٹا یا چمچہ نہیں رہنے دیتے کیونکہ شدید خارش کے حملے کی صورت میں مریض کانٹوں چمچوں سے اپنے جسم کو ادھیڑ ادھیڑ کر لہو لہان کر لیتا ہے۔ اور پھر خارش کے ساتھ ساتھ زخموں کی تکلیف سے دھاڑیں مار کر روتا ہے۔ مریض اتنی شدت سے روتا ہے کہ اہل محلہ اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ مریض کی زور دار بھیانک آوازیں اور دھاڑٰں سن کر گلی سے گزرنے والے لوگ سمجھتے ہیں کے اندر کسی زندہ انسان کو ذبح کیا جا رہا ہے۔ جیسے بکرے کو کاٹا جارہا ہے ‘مریض کی خارش اور پرانے ناسور اب لا علاج ہو چکے ہیں۔ دنیا جہاں کی دوائیاں اور مرہم فیل ہوچکے ہیں مرض بڑھتا گیا جوں جوں دعا کی ڈاکٹروں حکیموں لیبارٹریوں ہسپتالوں کے دھکے کھانے اور ناکام و نامراد ہونے کے بعد بہت ساری دولت لٹانے کے بعد اب تھک ہا ر کر مایوس ہوکر مریض کو اِس الگ کمرے میں شفٹ کر دیا گیا ہے۔

دن میں تو کوئی نہ کوئی مریض کے پاس ہوتا ہے، رات کو اِسے زنجیروں سے اِس لیے باندھ دیتے ہیں تاکہ یہ خارش کرکے اپنے زخموں کو اور نہ خراب کر دے۔

محترم قارئین لا ہور کے علا قے میں ایک پرانے ساٹھ سال سے زیادہ عمر کا ایک ادھیڑ عمر بوڑھا گندگی اور غلاظت کا ڈھیر بنا بیٹھا تھا بوڑھے شخص کے تقریبا تمام اعضا کمزور اور اندرونی نظام کام کرنا چھوڑ چکے تھے خوفناک تیز خارش نے جسم کی رگ رگ کو زخموں سے چور کر دیا تھا وہ سر سے پائوں تک لہولہان اور زخموں سے چور تھا خوفناک بیماری اور بڑھاپے نے اُس سے سب کچھ چھین کر اِسے نشانِ عبرت بنا رکھ دیا تھا، گھر کی حالت سے لگ رہا تھا کہ یہاں کے مکین مالی طور پر آسودہ ہیں گھر میں روپے پیسے کی کمی نہ تھی لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ اگر گھر کے مکین دولت مند ہیں، تو اِس لاچار بے بس زخموں سے چور بابے کا علاج کیوں نہیں کر رہے، میں مریض کی خوفناک بلکہ بھیانک قابل رحم حالت کے لیے بلکل بھی تیار نہ تھا، مجھے بتایا گیا تھا کہ ایک بوڑھا مریض ہے جو اپنی بیماری اور زخموں کی وجہ سے چل کر میرے پاس نہیں آسکتا اِس لیے میں اِس مریض کے بیٹے کے ساتھ یہاں آیا تھا۔

اِس کا بیٹا پچھلے کئی دنوں سے میرے پاس آرہا تھا میں نے شدید مصروفیت کی وجہ سے بیٹے کو کئی دن انکا ر کیا لیکن بیٹے کے بار بار آنے اور مریض کی حالت بتانے پر میں یہاں آگیا تھا، لیکن یہاں آکر مریض کی حالت دیکھ کر میں پریشان ہوگیا تھا، بزرگ کی خوفناک حالت زار دیکھ کر میرے اعصاب منتشر ہو چکے تھے، آخر آہستہ آہستہ میرے اعصاب جب بحال ہوئے تو میں نے بیٹے کی طرف دیکھا جو منہ پر ماسک چڑھائے کھڑا تھا، تو اُس نے مریض کے پاس پڑی ہوئی کرسی پر اشارہ کیا کہ میں اُس کرسی پر بیٹھ جائوں مریض کے جسم پر جابجا خون اور ناسور اور بور براز کے بدبو دار بھبوکے اڑ رہے تھے، بدبو کی شدت مجھے کرسی پر بیٹھنے سے روک رہی تھی، لیکن پھر فوری خوف خدا اور خدمت خلق کا جذبہ میرے اوپر غالب آیا، اور میں مریض کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا، مریض گہری ملتجی نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا ساتھ ساتھ زخموں کی شدت اور تکلیف سے سسکیاں بھی لے رہا تھا، میری طرف دیکھ کر اچانک اُس نے میرے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے اور چھت کی طرف اشارہ کرکے کہا مجھے اللہ تعالی سے معافی دلا دیں، میں بہت بڑا ظالم جابر گناہ گار انسان ہوں۔ میری ساری زندگی دوسروں پر ظلم کر تے گزری ہے۔

Patient in Hospital

Patient in Hospital

پھر درد کی شدت سے اُس کی آواز آہوں سسکیوں اور دھاڑوں میں تبدیل ہو گئی، درد پچھتا وہ اور زخموں کی شدت سے اب اُس سے بولا نہیں نہیں جا رہا تھا، اب وہ مسلسل رو رہا تھا اور بار بار معافی مانگ رہا تھا، کہ مجھے خدا سے معافی دلا دیں اب وہ اشاروں میں باتیں کر رہا تھا اور پھر اُس نے ایک کاغذ میری طرف بڑھایا کہ اِس کو آپ پڑھ لیں آپ کو میرے گناہوں اور جرموں کا پتہ چل جائے گا مریض نے گناہوں کا اقرار کیا تھا، اُس کے بقول میں طاقتور سرکاری عہدے پر تھا، ساری زندگی بہت ٹھاٹ غرور اور نخرے سے نوکری کی میر ی سختی اور دہشت دور دور تک پھیلی ہوتی تھی، میں نے جہاں بھی نوکری کی اُس دفتر کے درودیوار بھی میری ہیبت سے کانپتے تھے، میں دوسروں کو تکلیف درد اور سزا دے کر خوش ہوتا تھا، میں خو ش لباس تھا، مہنگے لباس گھڑیاں عینکیں پینٹ کوٹ میری پہچان تھی، مہنگے پرفیومز میری کمزوری تھے، میں جہاں سے گزر جاتا وہ جگہ مہک جاتی لوگ میری خوش لباسی اور عطر پسندی کی مثالیں دیا کر تے تھے، میں نے بے شمار لوگوں پر ظلم کئے جھوٹی سزائیں دیں، جو میری شان میں گستاخی کرتا میں اُس کو کیڑے مکوڑے کی طرح پائوں تلے مسل کے رکھ دیتا، میرے سے کوئی بھی پنگا لینے کی غلطی نہ کرتا بلکہ میرے بارے میں مشہور تھا، کہ میں دوستوں کو بھول جاتا ہوں دشمنوں کو نہیں ویسے تو میری پچھلی زندگی لوگوں پر ظلم و ستم کی داستانوں سے بھری ہوئی ہے، لیکن ایک گناہ ایسا ہے کہ جس میں بھی نہیں بھول سکتا اور یقینا میری بیماری اُسی گنا ہ کا نتیجہ ہے، میرا ایک ڈرائیور تھا وہ کسی گائوں سے مزدوری کے لیے شہر آیا ہوا تھا، وہ سرکاری ملازم تھا۔

میں جب اُس کے محکمے میں گیا تو وہ میرا ڈرائیور بن گیا، ایک دن وہ میری بیوی کی ذاتی گاڑی لے کر مارکیٹ گیا، تو گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا، جس میں اُس بیچارے کا بلکل بھی قصور نہ تھا، گا ڑی برباد ہوگئی میرے اندر غصے اور سزا کی آگ دہک اٹھی، اُس نے بہت منتیں کیں ہاتھ جوڑے کہ میرا قصور نہیں، لیکن میں نہ مانا اُس نے گھر بار زیورات بیچ کر پیسے دیے، لیکن پیسے پھر بھی پورے نہ ہوئے تو میں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے اُس پر جھوٹا مقدمہ بنوا کر اُسے جیل میں ڈالوا دیا، اُس کے جیل جانے کے بعد اُس کے بوڑھے ماں باپ کئی بار معافی مانگنے میرے پاس آئے، لیکن میں نے انہیں بھی دھکے مار کر بھگا دیا، وہ بیچارے کئی بار آکر میرے قدموں میں لپٹے معافیاں مانگیں، لیکن میری انتقام کی آگ سرد نہ ہوئی جب وہ بار بار آتے، تو آخر میں نے اُن کو بھی جیل کی دھمکی دی تو بیچارے چلے گئے لیکن جاتے جاتے ماں بددعا دے گئی کہ تم نے میرے بیٹے پر ناجائز ظلم کیا ہے۔

ایک دن جب اقتدار اور طاقت کا سورج تم پر نہیں ہوگا، تو تم ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرو گے، تمہاری دولت طاقت عہدہ اختیار تعلقات کچھ بھی کام نہ آئے گا، میری یہ بددعا ہے، کہ اللہ تم سے وہ سب چھین لے جس کے بل بوتے پر تم غریبوں مسکینوں پر ظلم کر تے ہو، بوڑھے ماں باپ بددعا دے کر چلے گئے، وقت کا پہیہ چلتا رہا مجھے ریٹائرڈ ہو نے سے پہلے الرجی اور خارش نے پکڑ لیا، میں دولت پانی کی طرح بہائی آرام نہ آیا، ریٹائرڈ ہوگیا میری بیماری بڑھتی گئی، جب میں علاج سے مایوس ہوا تو غریب کی بددعا یاد آئی تو دوڑ کر اُن کے گائوں معافی مانگنے گیا تو لوگوں نے بتایا، جیسے ہی اُن کا بیٹا جیل سے آیا وہ تمہارے خوف سے کسی نا معلوم جگہ پر چلے گئے، اُس کے بعد میں اُن سے معافی مانگنے در بدر گیا، لیکن نہ مجھے وہ ملے اور نہ ہی خدا کو مجھ پر ترس آیا، یہ میری بیماری نہیں بلکہ اُن غریبوں کی بد دعا ہے آہ ہے جو عرش سے ٹکرائی اور میرے لیے رحمت کے سارے دروازے بند ہوگئے۔

PROF ABDULLAH BHATTI

PROF ABDULLAH BHATTI

تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956

Sad Old Woman

Sad Old Woman