غریب کی پریشانی اولاد کے قتل کا باعث

Children Working

Children Working

تحریر : خالد بن سلام
موجودہ دور میں ملکی، معاشی اور معاشرتی حالات سے باخبر رہنا انتہائی آسان ہو گیا ہے۔ حالات معلوم کرنے کے کئی ذرائع وجود میں آگئے ہیں۔ جس کے پاس جیسی سہولت ہے وہ حالات سے اتنا ہی باخبر ہوتا ہے۔ ان باخبر ذرائع سے کئی ایسی خبریں سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں جن سے خوشی ملتی ہے اور کئی خبریں دل دہلا دیتی ہیں۔ چند دنوں میں ایسی خبریں پڑھنے کو ملیں جن سے دل خون کے آنسورو دیا۔ایک خبر یہ تھی کہ کراچی کے علاقے کورنگی میں سوتیلے باپ کے بیٹوں پر وحشیانہ تشددتھا جس سے ایک بچہ جانبحق ہو گیا۔ ملزم نے اپنے 5 اور 6 سالہ بیٹوں کو بات نہ ماننے پر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جو ایک سہہ نہ سکا۔ واقعہ غربت کے باعث پیش آیا۔ فطرت و عادت کے مطابق بچوں کا باپ سے چیزیں مانگنا اور غربت و تنگ دستی کے باعث باپ کا غصے میں آجانا واقعے کا اصل سبب تھا۔ اس کے دوسرے دن بعد پھر ایک اور دل دہلادینے والی خبر پڑھنے کو ملی جس میں لاہور کے علاقے شاہدرہ میں ایک سفاک شخص نے اپنے ہی تین معصوم بھتیجوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

ملزم چچا نے کسی بات پر طیش میں آکر اپنے چھوٹے بھائی کے 3 بچوں کوچھری کے وار کر کے موت کی نیند سلا دیا۔ ملزم اولاد کے نہ ہونے کے باعث نفسیاتی مریض بن چکا تھا۔ معصوم بچوں کے قتل کی ان خبروں سے قاتل کی درندگی اور سفاکیت کا پتا چلتا ہے جو اپنے ناکردہ گناہوں یا اپنی بدنصیبی کا قصور وار معصوم بچوں کو ٹھہراتے ہوئے موت کی نید سلادیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے آیا کہ ان معصوم جانوں کو سفاکیت کے ساتھ قتل کر دینے سے معاملات ٹھیک ہو جاتے ہیں؟ ان بچوں کا کیا قصور تھا۔ کیا ان معصوم جانوں کے قتل سے مشکلات ختم ہو جاتی ہیں یقیناََ ختم تو نہیں ہوتیں۔ بجائے ختم ہونے کے نئی مشکلات جنم لیتی ہیں جن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جب کبھی مشکلات بڑھ جائیں تو انسان اپنی بدحالی اور بد نصیبی کا ذمہ دارخود کو ٹھہرانے کے بجائے کسی اور کو سزا دیتا ہے یقیناََ سب سے بڑا ذمہ دار وہ خود ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو پریشان کن حالات میں انسان کی سب سے بڑی کمزوری تب پیدا ہوتی ہے جب ہمارا ذہن مشکلات میں گھر جائے اوران مصائب سے نکلنے کا کوئی ذریعہ نظر نہ آرہا ہو۔ایسی صورتحال بے بسی کو اور بے بسی سفاکیت کو جنم دیتی ہے۔ آج کل معاشرے میں ہر طرف افراتفری کا ایسا عالم ہے ہر انسان پریشان دکھائی دیتا ہے۔ ایک پریشانی کے بعد دوسری پریشانی منتظر ہوتی ہے ایسے حالات میں انسان نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ ان حالات میں معمولی سے معمولی بات بھی ایک بڑے نقصان کا باعث بن جاتی ہے۔ ملک میں آئے دن کے ہنگامے، بے روزگاری، مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے۔ غریب کے لیے دو وقت کے کھانے کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا ہے۔ غریب کی غربت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے لیکن کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ ان مشکلات اور حالات میں جب کوئی حل نکلتا ہو ا نظر نہیں آتا تو غریب اپنی غربت کے باعث اپنی مشکلات سے چھٹکارے کا حل اور اس کا قصور وار اپنی اولاد کو ٹھہراتا ہے اور اولاد کو قتل کرنے جیسی سفاکیت پر اتر آتا ہے۔

Ignorance

Ignorance

اگر ہم موجودہ دور سے نکل کر دور جاہلیت کا جائزہ لیں توایسا لگتا ہے کہ حالیہ جدید دور ، دور جاہلیت سے مشابہت ہی نہیں کئی درجے آگے نکل چکا ہے۔ دور جاہلیت میں اولاد کو نحوست گردانتے ہوئے زندہ درگور کر دیتے تھے۔ بظاہر تو وہ دور گزرگیا لیکن حالیہ جدید دور میں ایسے واقعات کا ہونا دور جاہلیت کے واپس پلٹنے کی واضح نشانی ہے۔ حالیہ دور میں اولاد کو فقر و فاقہ کے خوف سے قتل کرنا رواج بنتا جا رہا ہے جب کہ اللہ نے قرآن میں واضح الفاظ میں بیان فرما دیا ہے کہ : ”اپنی اولاد کو فقر و فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرو کیوں کہ ہم تمہیں اور انہیں بھی رزق دیتے ہیں” الانعام: 151۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ”بیشک اللہ روزی دینے والا قوی اور توانا ہے” الذاریات 85 ۔ ان آیات کی روشنی میں دیکھا جائے تو وہ لوگ جو اولاد کو قتل کرہے ہیں وہ صریحاََ اللہ کے فرامین کی نافرمانی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ انسان کا کام ہے رزق تلاش کرنا ہے نہ کہ رزق کی وجہ سے کسی کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرنا ہے ۔ اولاد کو قتل کرنے سے پہلے بھی ان کو رزق مل رہا تھا قتل نہ کرتے تو بھی رزق ملتا۔ پھر جب رزق دینا اللہ کے ذمے ہے تو انسان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو قتل کرے۔

Government

Government

حکومت وقت غریبوں کی غربت بڑھانے میں مصروف عمل ہے اور امیروں کی امیری اور ان کی آسائشوں کے لیے نئے سے نئے اہتمام کرتی چلی جا رہی ہے۔اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی پیسہ نہیں ہے۔ غریبوں کے روزگار ان کے دو وقت کے کھانے کے لیے کائی بندوبست نہیں کیا جا رہا۔ میٹرو بس تو متعارف کی جارہی ہیں لیکن صحت اور روزگار کے ذرائع مہیا نہیں کیے جا رہے۔ حکومت وقت کو چاہیے ایسے ذرائع مہیا کرے جس سے امیر غریب سب کو فائدہ حاصل ہو۔ عوام کو نفسیاتی پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل ہواور فقر و فاقہ کے خوف سے کوئی اپنی اولادوں کو قتل نہ کرے۔یقیناََ یہی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔

تحریر : خالد بن سلام
khalidbinsalam020@gmail.com