پورٹ لینڈ میں مظاہرین کی پولیس سے جھڑپیں، متعدد گرفتاریاں

Protest

Protest

پورٹ لینڈ (جیوڈیسک) چیپمن سکوائر میں کچھ مظاہرین نے پولیس اہل کاروں پر پتھراؤ کیا اور بدبودار سیال پھینکا۔ جس کے بعد پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے ان پر مرچوں کا چھڑکاؤ کیا۔ اس موقع پر پولیس نے 14 افراد کو گرفتار کر کیا۔

امریکی ریاست اوریگان کے شہر پورٹ لینڈ میں، جہاں گذشتہ ماہ ایک سفید فام قوم پرست کی جانب سے کئے گئے چاقو کے ایک حملے میں دو افراد ہلاک ہو گئے تھے، اتوار کے روز شہر کے مرکز میں دونوں فریقوں کی جانب سے نکالی گئی ریلیوں میں پولیس کے ساتھ پر تشدد جھڑپوں کے واقعات پیش آئے اور اس کے نتیجے میں 14 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

اتوار کے روز امریکہ کے شمال مغربی شہر پورٹ لینڈ اوریگان میں سینکڑوں مظاہرین صدر ٹرمپ کے خلاف اور ان کے حق میں ریلیاں نکالنے کے لیے اکٹھے ہوئے، اس دوران ان کی پولیس کے ساتھ کچھ جھڑپیں ہوئیں اور کچھ گرفتاریاں عمل میں آئیں۔

جب پورٹ لینڈ کےمئیرٹید وہیلرنے وفاقی عہدے داروں سے گذشتہ ماہ کی گھریلو دہشت گردی کے سلسلے میں دائیں بازو کی جانب سے آزادانہ تقریر کی ایک ریلی کو روکنے کی درخواست کی تو انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اس کا اختتام تشدد پر ہو سکتا ہے ۔ لیکن ان کی درخواست منظورنہیں کی گئی ۔ منتظمین نے جو یہ جانتے تھے کہ معاملہ حساس ہے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے پروگرام کے مطابق اس کا انعقاد کیا۔

ٹرمپ فری اسپیچ ریلی کے ایک اہم مقرر کیلی چیپ مین نے کہا کہ ہم یہ ریلی نہ کریں ۔ ہمیں آزادانہ تقریر پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم یہ ریلی محض اس لیے نکالیں کہ بائیں بازو کے کسی ذہنی مریض شخص نے کسی کو ہلاک کر دیا تھا ۔یہ وہ وقت ہے جب لوگوں کو باہر نکل کر بات کرنے اور ایک دوسرے سے رابطے کی ضرورت ہے۔

لیکن دونوں جانب سے ریلیوں کے شرکا کے لئے، جنہیں پولیس افسروں نے ایک خالی سڑک پر ایک لائن کے ذریعے الگ الگ کر دیا تھا، فری اسپیچ کے أصل مقصد کو برائے نام ہی پورا کیا اور اس موقع پر سوائے شور شرابے اور چیخ وپکار کے کچھ اور نہیں ہو سکا۔

چیپمن سکوائر میں کچھ مظاہرین نے پولیس اہل کاروں پر پتھراؤ کیا اور بدبودار سیال پھینکا۔ جس کے بعد پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے ان پر مرچوں کا چھڑکاؤ کیا۔ اس موقع پر پولیس نے 14 افراد کو گرفتار کر کیا۔

یہ ریلی نفرت کے خلاف منعقد کی گئی تھی۔ ریلی میں شریک ایک شخص مارک کالیوٹے کا کہنا تھا کہ میں اپنے آبائی قصبے میں گھر سے نکلتے ہوئے نہیں ڈروں گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہو، لیکن میں یہاں کھڑے ہونے کو ترجيح دوں گا ، بجائے اس کے کہ میرے بچے اور میرے بچوں کے بچوں کو خوف سے گھری ایک دنیا میں رہنا پڑے۔