غربت میری مجبوری

Youngest Children's Day

Youngest Children’s Day

تحریر : ہما طاہر ٹوبہ ٹیک سنگھ
ارے رانی بیٹی تم تو سکول گئی تھی اب گھر کیوں آ گئی؟؟؟۔ ابو آج ہمارے سکول میں” مینا بازار” ہے نا، تو آج سکول کا گیٹ کھلا ہوا ہے آج ہم گھر آ،جا سکتے ہیں۔ اچھا ٹھیک ہے بیٹی لیکن تم کیا کرنے آئی ہو اب؟؟؟،ابو بتایا تو ہے آج ہمارے سکول میں ” مینا بازار” ہے مجھے پیسے دیں ابو۔ رانی بیٹی صبح جاتے وقت تو تم کو 2 روپے دیے تھے۔ اوہو ابو!آج” مینابازار” ہے نا۔ وہاں سکول میں اتنا کچھ مل رہا ہے ٹیچرز نے کھلو نے منگوائے ہیں۔

آلو چنے بنائے ہیں،جھولے بھی آئے ہیں۔”۔” تو رانی بیٹی جو صبح 2 روپے دیے تھے اُن کا کیا کیا ہے ؟؟؟ ”۔” ابو جی اُن کے تو میں نے آلو چنے لے کر کھا لیے۔ تھوڑے سے تو آئے”۔” اچھا تو بیٹی اب الیسا کرو روٹی لے جائوگھر سے”۔ رانی بولی ”ابو روٹی تو میں روز لے کر جاتی ہوں آج تو پیسے دے دو۔ ابو آج میری سب سہلیوں کے پاس دس،دس روپے ہیں۔

مجھے بھی دیں نا”۔” رانی بیٹی تم کو پتہ ہے نا کہ تمھارا باپ ایک مزدور آدمی ہے اور مزدوری بھی کبھی ملتی کبھی نہیں۔ بیٹی تم تو میری رانی ہو اور میری رانی بیٹی تو بہت سمجھ دار ہے نا” ۔”جی ابو جی ”۔”اچھا اداس نہ ہوں، یہ لو ایک روپیہ لے لو اور جائوبیٹا سکول”۔ رانی اداسی سے مسکراتی ہوئی ایک روپیہ پکڑتی ہے۔” مگر یہ کیا؟؟؟ ابو یہ تو بہت پورانا نوٹ ہے”۔” ہاں بیٹی یہی ہے اب۔ پورانا نوٹ ۔دھیان سے کہیں پھٹ نہ جائے”۔”جی ٹھیک ہے ابو!” جائورانی اب سکول جائو ”۔رانی کھیلتے ہوئے سکول کی طرف روانہ ہوتی راستے میں باربار ایک روپے کو کبھی کھولتی ہے۔

Poverty

Poverty

کبھی بند کرتی ہے، اچانک ایک بار جلدی میں 1روپے کو کھولتے ہوئے زور سے کھنچ لیتی۔۔ آہو،، یہ کیا ہو گیا، ایک روپیہ تو پھٹ گیا۔

رانی خود سے ہی بولی ”رانی یہ تم نے کیا کیا؟؟؟”رانی کافی دیر سڑک کے بیچوں و بیچ گم صم کھڑی پھٹے ہوئے نوٹ کو دیکھتی رہی۔ رانی سوچ رہی تھی کہ اب وہ اپنی سہلیوں سے کیا کہے گی؟؟؟ ایک روپیہ تو پھٹ گیا۔ اب تو اسے کچھ کھانے کو بھی نہیں ملے گا۔ نہ جھولے ملیں گے یہ سوچ کر رانی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ پھر آہستہ آہستہ اداس صورت کے ساتھ رانی سکول کی طرف روانہ ہوتی ہے۔

سکول کے گیٹ میں رانی کی سہلیاں کھڑی ہوتی ہیں ایک کی نظر رانی پر پڑتی ہے اور وہ جلدی سے پوچھتی رانی تم پیسے لے ا ئی ؟؟کتنے پیسے ملے َ؟؟؟رانی کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ رانی کی ایک اچھی سہیلی عابدہ جلدی سے پوچھتی ہے ” رانی کیا ہوا ؟؟؟رو کیوں رہی ہو؟؟؟” رانی اپنا ہاتھ آگے کرتی جس میں پھٹا ہوا نوٹ پکڑا ہوتا ہے اور عابدہ سے کہتی ہے ”عابدہ !ابو نے ایک روپیہ دیا تھا پر راستے میں مجھ سے پھٹ گیا ”۔باقی سہلیاں ہنسنے لگ جاتی ہیں۔

رانی کو اور تکلف ہوتی ہے۔ وہ اور زیادہ رونے لگتی ہے عابدہ رانی کو چپ کراوتی ہے اور کہتی ہے” رانی کوئی بات نہیں میرے پاس پیسے ہیں نا، تو ہم ان پیسوں سے گزارا کر لے گئے تم اداس مت ہو ” ۔ رانی اداسی سے مسکرا دیتی ہے باقی سہلیاں اِدھر اُدھر ہو جاتی ہیں۔

Poverty

Poverty

رانی اور عابدہ جھولوں کی طرف بڑھ جاتی ہیں۔ رانی سکول میں تو جیسے تیسے وقت گزارتی اور باربار اپنے پھٹے ہوئے نوٹ کو دیکھتی، گھر آکر بھی رانی پورا دن اداس اور خاموش رہتی ہے۔ رات کو رانی اپنے بستر پر لیٹ جاتی اور سوچنے لگتی ہے کہ کاش ہم غریب نہ ہوتے، ہم بھی باقی سہلیوں کی طرح امیر ہوتے۔ آج میں بھی بہت سے پیسے لے کر جاتی یا پھر میرا ایک روپیہ ہی نہ پھٹتا”اوپر آسمان پر چاند ماموں اداسی سے اُس نھنی پری کو دیکھ رہا ہوتا ہے جو خود سے باتیں کرتے کرتے کب کی سو گئی۔

تحریر : ہما طاہر ٹوبہ ٹیک سنگھ