نئے پرال چیف کی تعیناتی کے بعد خلاف ضابطہ بھرتیاں

FBR

FBR

اسلام آباد (جیوڈیسک) ایف بی آر کے ماتحت ادارے پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (پرال) کے نئے سی ای او کی تعیناتی کے بعد پرال میں خلاف ضابطہ بھرتیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کے باعث پرال سے نکالے جانے والے پندرہ پندرہ سال سے کام کرنے والے ملازمین کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔

کچھ عرصہ قبل پرال کی سابق انتظامیہ کی جانب سے 600 سے زائد ملازمین کو فارغ کیا گیا تھا، ان ملازمین کو اس وقت فارغ کیا گیا تھا جب ٹیکس دہندگان کی جانب سے ٹیکس گوشوارے جمع کرائے جا رہے تھے اور بینکوں و دیگر اہم مقامات پر تعینات پرال کے اس ٹیکنیکل اسٹاف کو فارغ کرنے کی وجہ سے ایف بی آر کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی اور ریونیو شارٹ فال اربوں روپے میں چلا گیا جس پر وفاقی حکومت نے کارروائی کرتے ہوئے اس وقت کی سی ای او پرال اور چیئرمین ایف بی آر سمیت پرانی ٹیم کو عہدوں سے ہٹادیا اور موجودہ چیئرمین ایف بی آر سمیت دیگر ممبران پر مشتمل نئی ٹیم تشکیل دی گئی، جس نے اپنے عہدوں کا چارج سنبھالنے کے بعد معاملات کو کنٹرول کیا اور یہ طے پایا تھا کہ پہلے سی ای او پرال کی تقرری ہوگی اس کے بعد پرال کے نکالے جانے والے ملازمین کے بارے میںکوئی حکمت عملی بنائی جائیگی۔

ذرائع کے مطابق سابق سی ای او پرال کی پہلے سے پرال میں موجود لابی متحرک ہوگئی اور نئے سی ای او پرال عمران امجد کے آنے کے بعد اہم عہدوں پر اپنے من پسند لوگوں کی تقرری کیلیے نئے سی ای او پرال سے خلاف ضابطہ بھرتیاں کرانا شروع کر دیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پرال میں سینئر منیجر ایچ آر ایم کے عہدے کیلیے اہلیت کا معیار ایم بی اے ایچ آر ایم اور 10سال تجربہ مقرر کیا گیا تھا جبکہ اس عہدے کیلیے صبا خان نامی جس خاتون کو بھرتی کیا گیا ان کے پاس ایم بی اے آئی ٹی کی ڈگری ہے اور نہ ہی متعلقہ شعبہ میں کام کرنے کا تجربہ جو خلاف ضابطہ ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پرال سے جن ملازمین کو نکالا گیا وہ انتہائی تجربہ کار تھے اور یہ وہ ملازمین تھے جنہوں نے ایف بی آر کا ٹیکس سسٹم بنایا اوراسے متعارف کرواکرکامیاب کرایا۔ ذرائع کے مطابق نکالے گئے ملازمین میں وہ لوگ شامل ہیں جن کیخلاف کرپشن یا پروفیشنل نااہلی سمیت دیگر کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا۔ اس ضمن میں ایف بی آر کے ترجمان ڈاکٹر اقبال سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ابھی سی ای او پرال کی تقرری ہوئی ہے اور اسے کام کرنے کا مکمل اختیار دیا گیا ہے، وہ ذمے دار افسر ہیں اوراگر کوئی خلاف ضابطہ بھرتی ہوئی ہے تو اس بارے میں وہ خود زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں۔