اہمیت نماز۔۔۔۔احادیث کی روشنی میں

Namaz

Namaz

تحریر : مولانا رضوان اللہ پشاوری
٭ حضرت خذیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اِرشاد فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب کوئی سخت امْر پیش آتا تھا تو نماز کی طرف فوراََ متوجہ ہوتے تھے۔
فائدہ: نماز اللہ کی بڑی رحمت ہے اس لئے ہر پریشانی کے وقت میں ادھر متوجہ ہوجانا گویا اللہ کی رحمت کی طرف متوجّہ ہے اور جب رحمت الٰہی مساعد و مددگار ہو تو پھر کیا مجال ہے کسی پریشانی کی کہ باقی رہے ۔ بہت سی روایتوں میں مختلف طور سے یہ مضمون وارد ہوا ہے ۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین جو ہر قدم پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اتباع فرمانے والے ہیں ان کے حالات میں بھی یہ چیز نقل کی گئی ہے ۔ حضرت ابو دردائ فرماتے ہیں کہ جب آندھی چلتی تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوراً مسجد میں تشریف لے جاتے تھے اور جب تک آندھی بند ہو جاتی مسجد سے نہ نکلتے۔ اس طرح جب سورج یا چاند گرہن ہوجاتاتو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوراًنماز کی طرف متوجہ ہو جاتے۔

حضرت صہیب، حضوراقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ پہلے اَنبیاں کا بھی یہی معمول تھا کہ ہر پریشانی کے وقت نماز کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے ۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالی عنہ یک مرتبہ سفر میں تھے راستہ میں اطلا ع ملی کہ بیٹے کا انتقال ہو گیا۔ اونٹ سے اُترے دو رکعت نماز پڑھی پھر اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھا اور پھر فرمایا کہ ہم نے وہ کیا جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے اور قرآن پاک کی آیت وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِوَالصَّلوٰة ِتلاوت کی۔

ایک اور قصہ اسی قسم کا نقل کیا گیا ہے کہ حضرت ابن عباس تشریف لے جا رہے تھے ۔ راستہ میں اُن کے بھائی قثم کے انتقال کی خبر ملی۔ راستہ سے ایک طرف ہوکر اُونٹ سے اُترے ، دو رکعت نماز پڑھی اور التحیات میں بہت دیر تک دعائیں پڑھتے رہے ۔ اس کے بعد اُٹھے اور اُونٹ پر سوار ہوئے اور قرآن پاک آیت وَاسْتَعِیْنُوْا بِا الصَّبْرِ وَالصَّلوٰةِ وَاِنَّہَا لَکَبِیْرَة اِلَّاعَلیَ الْخَاشِعِیْنَ تلاوت فرمائی۔ ترجمہ :اور مدد حاصل کرو صبر کے ساتھ اور نماز کے ساتھ اور بیشک وہ نماز دشوار ضرور ہے مگر جن کے دلوں میں خشوع ہے ، اُن پر دشوار نہیں ۔ خشوع کا بیان تیسرے باب میں مفصل آرہا ہے ۔ انہیں کا ایک اور قصّہ ہے کہ اَزواجِ مطہرات میں سے کسی کے انتقال کی خبر ملی تو سجدہ میں گر گئے ۔ کسی نے دریافت کیا کہ یہ کیا بات تھی۔ آپ نے فرمایا کہ حضورۖکا ہم کو یہی ارشاد ہے کہ جب کوئی حادثہ دیکھو تو سجدہ میں (یعنی نماز میں) مشغول ہوجائو اس سے بڑا حادثہ اور کیا ہوگا کہ ام المومنین کا انتقال ہو گیا۔

Astaghfar

Astaghfar

حضرت عبادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے انتقال کا وقت جب قریب آیا تو جو لوگ وہاں موجود تھے اُن سے فرمایا کہ میں ہر شخص کو اس سے روکتا ہوں کہ وہ مجھے روئے اور جب میری روح نکل جائے تو ہر شخص وضو کرے اور اچھی طرح سے آداب کی رعایت رکھتے ہوئے وضو کرے اور پھر مسجد میں جائے اور نماز پڑھ کر میرے واسطے استغفار کرے ۔ اس لئے کہ اللہ جل شانہ نے وَاسْتَعِیْنُوْ بالصَّبْرِ وَالصَّلوٰةِ کا حکم فرمایا ہے ۔ اس کے بعد مجھے قبر کے گڑھے میں پہنچا دینا حضرت ام کلثوم کے خاوند حضرت عبدالرحمن بیمار تھے اور ایک دفعہ ایسی سکتہ کی سی حالت ہو گئی کہ سب نے انتقال ہو جانا تجویز کر لیا۔ حضرت ام کلثوم اُنہیں اور نماز کی باندھ لی۔ نماز سے فارغ ہوئیں تو حضرت عبدالرحمن کو بھی افاقہ ہوا۔ لوگوں سے پوچھاکیا میری حالت موت کی سی ہوگئی تھی لوگوں نے عرض کیا جی ہاں ۔

فرمایا کہ دو فرشتے میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ چلو احکم الحکمین کی بارگاہ میں تمہارا فیصلہ ہونا ہے وہ مجھے لے جانے لگے تو ایک تیسرے فرشتے آئے اور اُن دونوں سے کہا کہ تم چلے جائو یہ ان لوگوں میں ہیں جن کی قسمت میں سعادت اسی وقت لکھ دی گئی تھی جب یہ ماں کے پیٹ میں تھے اور ابھی ان کی اولاد کو ان سے اور فوائد حاصل کرنے ہیں ۔ اس کے بعد ایک مہینہ تک حضرت عبدالرحمن زندہ رہے پھر انتقال ہوا۔ حضرت نضر کہتے ہیں کہ دن میں ایک مرتبہ سخت اندھیرا ہوگیا ۔ میں دوڑا ہوا حضرت انس کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی کبھی ایسی نوبت آئی ہے ۔ انہوں نے فرمایا خدا کی پناہ ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں تو ذرا بھی ہوا تیز چلتی تھی تو ہم سب مسجدوں کو دوڑ جاتے تھے کہ کہیں قیامت تو نہیں آ گئی۔ عبداللہ بن سلام کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر والوں پر کسی قسم کی تنگی پیش آتی، تو اُن کو نماز کا حکم فرمایا کرتے اور یہ آیت تلاوت فرماتے ۔ وَائْ مُرْ اَھْلَکَ بِا لصَّلوٰةِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْہَا لَا نَسْئَلُکَ رِزْقاَ الآیة اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کرتے رہیٔ اور خود بھی اس کا اہتمام کیجئے ہم آپ سے روزی کموانا نہیں چاہتے روزی تو آپ کو ہم دیں گے۔

ایک حدیث میں اِرشا د کہ جس شخص کوئی بھی ضرورت پیش آئے دینی ہو یا دنیو ی ا س کاتعلق مالک الملک سے ہو یا کسی آدمی سے ، اس کو چاہیے کہ بہت اچھی طرح وضو کرے پھر دو رکعت نماز پڑھے پھر اللہ جل شانہ کی حمدوثنا کرے اور پھر درود شریف پڑھے اس کے بعد یہ دُعا پڑھے تو انشاء اللہ اس کی حاجت ضرور پوری ہوگی۔دعا یہ ہے : لاَ اِلٰہَ اَلَّا اللّٰہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ سُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ اَسْئَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالْغَنِیْمَةَ مِنْ کُلِّ بِرِّ وَالسَّلَامَةَ مِنْ کُلِّ اِثْمٍ لَا تَدَعْ لِی ذَنْبًا اِلَّا غَفَرْتَہ یَآ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ وَلَا ہَمًّا اِلَّا فَرَّجْتَہ وَلَا حَاجَةً ہِیَ لَکَ رِضًا اِلَّا قَضَیْتَہَا یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ ۔ وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے حاجتیں نماز کے ذریعہ طلب کی جاتی ہیں اور پہلے لوگوں کو جب کوئی حادثہ پیش آتا تھا وہ نماز ہی کی طرف متوجہ ہوتے تھے ۔ جس پر بھی کوئی حادثہ گذرتا وہ جلدی سے نماز کی طرف رجوع کرتا۔ کہتے ہیں کوفہ میں ایک قلی تھا جس پر لوگوں کو بہت اِعتماد تھا امین ہونے کی وجہ سے تاجروں کا سامان روپیہ وغیرہ بھی لے جاتا۔ ایک مرتبہ وہ سفر میں جارہا تھا۔ راستہ میں ایک شخص اس کو ملا۔ پوچھا کہاں کا ارادہ ہے ۔ قلی نے کہا فلاں شہر کو۔ وہ کہنے لگا کہ مجھے بھی وہاں جانا ہے ۔ میں پائوں چل سکتا تو تیرے ساتھ ہی چلتا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک دینار کرایہ پر مجھے خچر پر سوار کرلے ۔ قلی نے اس کو منظور کر لیا وہ سوار ہوگیا۔

Prayers

Prayers

راستہ میں ایک دو راہہ ملا۔ سوار نے پوچھا کدھر کو چلنا چاہیے ۔ قلی نے شارع عام کا راستہ بتایا۔ سوار نے کہا یہ دوسرا راستہ قریب کا ہے اور جانور کے لئے بھی سہولت کا ہے کہ سبزہ اس پر خوب ہے ۔ قلی نے کہا میں نے یہ راستہ دیکھا نہیں ۔ سوار نے کہا میں بارہا اس راستہ پر چلا ہوں ۔ قلی نے کہا اچھی بات ہے اسی راستہ کو چلے ۔ تھوڑی دور چل کر وہ راستہ ایک وحشت ناک جنگل پر ختم ہوگیا۔ جہاں بہت سے مردے پڑے تھے ۔ وہ شخص سواری سے اُترااور کمر سے خنجر نکال کر قلی کے قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ قلی نے کہا، ایسا نہ کر۔ یہ خچر اور سامان سب کچھ لے لے یہی تیرا مقصود ہے مجھے قتل نہ کر۔ اس نے نہ مانا اور قسم کھالی کہ پہلے تجھے مارونگا پھر یہ سب کچھ لونگا۔ اس نے بہت عاجزی کی مگر اُس ظالم نے ایک بھی نہ مانی۔ قلی نے کہا اچھا مجھے دو رکعت آخری نماز پڑھنے دے ۔ اُس نے قبول کیا اور ہنس کر کہا۔ جلدی سے پڑھ لے ان مردوں نے بھی یہی درخواست کی تھی مگر اُن کی نماز نے کچھ بھی کام نہ دیا۔

اس قلی نے نماز شروع کی۔ الحمد شریف پڑھ کر سورت بھی یاد نہ آئی۔ اُدھر وہ ظالم کھڑا تقاضا کر رہا تھاکہ جلدی ختم کر۔ بے اختیار اُسکی زبان پر یہ آیت جاری ہوئی(اَمَّنْ یُجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ ) یہ پڑھ رہاتھا اور رو رہا تھا کہ ایک سوار نمودار ہواجس کے سر پر چمکتا ہوا خَود (لوہے کی ٹوپی )تھا اُس نے نیزہ مار کر اُس ظالم کو ہلاک کردیا ۔ جس جگہ وہ ظالم گرا ، آگ کے شعلے اس جگہ سے اُٹھنے لگے ۔ یہ نمازی بے اختیا ر سجدہ میں گر گیا۔ اللہ کا شکر ادا کیا۔ نماز کے بعد اُس سوار کی طرف دوڑا۔ اُس سے پوچھاکہ خدا کے واسطے اتنا بتادو کہ تم کون ہو کیسے آئے ۔ اُس نے کہا کہ میں( اَمَّنْ یُجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ )کا غلام ہوں اب تم مامون ہو جہاں چاہے جائو۔ یہ کہ کر چلاگیا۔ درحقیقت نماز ایسی یہ بڑی دولت ہے کہ اللہ کی رضا کے علاوہ دنیا کے مصائب سے بھی اکثر نجات کا سبب ہوتی ہے ، اور سکونِ قلب تو حاصل ہوتا ہی ہے ۔

ابن سیر کہتے ہیں کہ اگر مجھے جنت کے جانے میں اور دو رکعت نماز پڑھنے میں اختیار دے دیا جائے تو میں دو رکعت ہی کو اختیا ر کروں گا۔ اس لئے کہ جنت میں جانا میری اپنی خوشی کے واسطے ہے اور دو رکعت نماز میں میرے مالک کی رضا ہے ۔ حضورۖکا ارشاد ہے ۔ بڑا قابل رشک ہے وہ مسلمان جو ہلکا پھلکا ہو(یعنی اہل و عیال کا بوجھ نہ ہو) نماز سے وافر حصہ اس کو ملا ہو۔ روزی صرف گزارے کے قابل ہو جس پر صبر کرکے عمر گزار دے ۔اللہ کی عبادت اچھی طرح کرتا ہو۔ گمنامی میں پڑا ہو۔ جلدی سے مرجاوے ۔ نہ میراث زیادہ ہو نہ رونے والے زیادہ ہوں ۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ اپنے گھر میں نماز کثرت سے پڑھا کرو، گھر کی خیر میں اضافہ ہوگا۔

Rizwan Peshawari

Rizwan Peshawari

تحریر : مولانا رضوان اللہ پشاوری
0313-5920580
rizwan.peshawarii@gmail.com