ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے

Wars Victories

Wars Victories

تحریر : عارف الدین
آپ تاریخ اٹھا کر دیکھئے دنیا کی اکثر ممالک کی تاریخ جنگوں کے واقعات فتوحات اور شکستوں کی کہانیوں سے بھری پڑی ہیں ہر قوم فتح پر فخر محسوس کرتی ہے یہ شکست ہی ہے جوان کی تاریخ اور ذہنوں پر انتہائی برے نقوش چھوڑتی ہے بعض اوقات مسلسل شکستوں کے بعد ایک قابل تعریف فتح اس قوم ایک سنہرا باب بن جاتی ہے اور کبھی مسلسل فتوحات کے بعد ایک بار شکست سے دوچار ہونا فاتح قوم کے حوصلوں کو پست کر دیتی ہے مثال کے طور پر آپ ہٹلر کولے لیں میں ان کی مکمل ہسٹری میں نہیں جانا چاہتا ہوں مختصراًیہ کہ 1933 میں وہ جرمن کا چانسلر (جو غالباً جرمن میں وزیر اعظم کیلیے استعمال ہوتا ہے)بناپھر وہ فتوحات کی دوڑ میں شامل ہوگیا جو جنگ عظیم دوم کا سبب بنا۔ ابتدائی فتوحات اسے جنگ وغیرہ کے چکر میں پڑے بغیر حاصل ہوئیں۔ انگلستان اور فرانس اپنی معاشی بدحالی کے باعث مایوسانہ حد تک امن کے خواہاں تھے انہوں نے ہٹلر کے کسی کام میں مداخلت نہیں کی۔

ہٹلر نے ور سیلز کا معاہدہ منسوخ کیا اور جرمن فوج کو ازسر نو منظم کیا۔ اس کے دستوں نے مارچ 1936ء میں رہائن لینڈ پر قبضہ کیا۔ مارچ 1938ء میں آسٹریا کو جبری طور پر خود سے ملحق کر لیا۔ اس نے سوڈیٹن لینڈ کو 1938 ء میں اس سے الحاق پر رضامند کر لیا۔ ہر مرحلے پر ہٹلر کے مقابلے میں مغربی جمہوریتوں نے پسپائی اختیار کی۔ انگلستان اور فرانس نے البتہ پولینڈ کے دفاع کا قصد کیا جو ہٹلر کا اگلا نشانہ تھا۔

ہٹلر نے اپنے دفاع کے لیے اگست 1939ء میں سٹالن کے ساتھ عدم جارحیت کے معاہدے پر دستخط کیے دراصل یہ ایک جارحانہ اتحاد تھا۔ جس میں دو آمر اس امر پر متفق ہوئے تھے کہ وہ پولینڈ کو کسی شرح سے آپس میں تقسیم کریں گے۔ نودن بعد جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا۔ 1940 ء میں ہٹلر کے لیے بہت اہم برس تھا۔ اپریل میں اس کی فوجوں نے ڈنمارک اور ناروے کو روند ڈالا۔ مئی1940 میں انہوں نے ہالینڈ،بلجیم اور لکسمبرگ کو تاخت وتاراج کیا۔ جون1940 میں فرانس نے شکست کھائی۔ لیکن اسی برس برطانیہ نے جرمن ہوائی حملوں کا دلیری سے مقابلہ کیا۔ برطانیہ کی مشہور جنگ شروع ہوئی۔ ہٹلر کبھی انگلستان پر قابض ہونے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ اپریل1941ء میں ہٹلر کی فوجوں نے یونان اور دیو گو سلادیہ پر قبضہ کیا۔ جون 1941ء میں ہٹلر نے عدم جارحیت کے معاہدے کو تار تار کیااور اس پر حملہ آور ہوا۔

Hitler

Hitler

اس کی فوجوں نے بڑے روسی علاقہ پر فتح حاصل کی۔ لیکن وہ موسم سرما سے پہلے روسی فوجوں کو نیست ونابود کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا 1942ء کے وسط تک جرمنی یورپ کے ایک بڑے حصہ پر قابض ہوچکا تھا۔ تاریخ میں کسی قوم نے کبھی اتنی وسیع سلطنت پر حکمرانی نہیں کی تھی۔ مزید برآں اس نے شمالی افریقہ کے بیشتر حصہ کو بھی فتح کیا۔
1942ء کے دوسرے نصف میں جنگ کا رخ بدل گیا۔ جب جرمنی کو مصر میں ایل المین اور روس میں سٹالن گراڈکی جنگوں میں شکست ہز یمت اٹھانی پڑی۔ ان نقصانات کے بعد جرمن کی عسکری برتری کا زوال شروع ہوا۔ اسی طرح ہٹلر کی تمام بڑی بڑی فتوحات لینن گراڈ پر شکست سے خاک میں مل گئیں، فوج کی خود اعتمادی ختم ہوگئ۔

فیلڈ مارشل پاؤلُسن نے ہتھیار ڈال دیے اور بہت جلد ہٹلر کی فوجوں کو ہر جگہ شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اسکے نتیجہ میں روسی افواج نے برلن پر قبضہ کر۔ ہٹلر کو شرم و ذلت سے خود کشی کرنا پڑی۔ 9/11 سے پہلے پاکستان میں مکمل امن وامان تھا 9/11 کے واقعے کے بعد مشرف نے افغان پالیسی پر نظر ثانی کرکے تبدیل کرنے فیصلہ کرلیا امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا پاکستان نے اڈے فراہم کئیانٹیلیجنس معلومات فراہم کرنے میں مدد کی جس کے نتیجے میں بے تحاشہ بمباری افغان عوام پر ہماری سرزمین سے ہوئی ھزاروں افغان مرد عورتیں اور بچے شہید ہوئیں بالاخرطالبان نے سقوط اختیار کرکے گوریلا جنگ لڑنے کا فیصلہ کرلیا جوتاحال جاری ہے۔

امریکہ کو سخت مزاحمت کا سامنا کرناپڑا امریکہ نے اپنی ناکامی چھپانے کیلیے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اپریشن کا مطالبہ کیا۔ مشرف نے لبیک کہتے ہوے پاکستانی فوج کو قبائل میں اتارا
قبائل میں زمینی اپریشن کے ساتھ فضائی بمباری کا سہارا لیا گیا جس کے نتیجے بے قبائلی مردوں اور عورتوں اور بچوں کی شہادتوں کے علاوہ کاروبار تباہ ہوئے لاکھوں قبائلی جانوں کی حفاظت کے خاطر مختلف علاقوں میں ہجرت پر مجبور ہوئے امریکیوں کے کلیجے اس پر بھی ٹھنڈے نہیں ہوئے تو خود ڈرون حملے شروع کیے جس میں مساجد مدارس اور سول ابادی کے علاوہ اسپتالوں کو بھی نہیں بخشا آئیے دیکھتے ہیں نتائج کیا نکلے امریکہ تو ناکام ہی ہے اور آج بھی افغان طالبان سے محفوظ راستے کا بھیک مانگ رہا ہے لیکن پاکستان کو اس جنگ جھونکنے کے صلہ میں ملک بھر میں دشمن ملک انڈیا کو مساجد، امام بارگاہوں،مزاروں اور عوامی مقامات پر خودکش اور بم دھماکو ں کے زریعے پاکستان کو کمزور کرنے کا سنہرا موقع ملا قبائلی عوام محب وطن ہیں۔

بغیر تنخوا کے وطن کے محافظ ہیں جس کی مثال 1948میں آزاد کشمیر کا تحفہ پاکستان کو قبائلی عوام نے دیا 1965 کی جنگ میں پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ قبائلی عوام لڑے 1979 میں جب روس نے پاکستان کے گرم پانیوں تک پہنچنے کا خواب دیکھا توان کے اس خواب کو قبائلی عوام نے مٹی میں ملا کر اپنے خون سے پاکستان کادفاع کیا. اسکے مقابلے میں پاکستان نے انکو کیا دیا پہلے مجاہد اور پهر دهشت گرد کا ٹائٹل دیا پچھلے 68 سالوں سے حکومت پاکستان نے قبائلی علاقوں پرFCR جنگل کا قانون نافذ کر رکھا ہے پاکستان کے دوسرے علاقے جہاں بجلی گیس اور پانی جیسی سہولیات موجود ہیں وہاں قبائلی علاقوں میں پکی سڑکیں تک موجود نہیں۔

پے درپے ملٹری اپریشنز کی وجہ سے آج لاکھوں قبائلی عوام خیموں میں ذندگی بسر کر نے پر مجبور ہیں. جبکہ دوسری طرف میٹرو چلانے کی باتیں ہو رہی ہے کیا میٹرو ضروری ہے یا قبائل کی آباد کاری
یہی متاثرین جب دوسرے صوبوں میں جاتے ہیں تو دہشتگرد کہہ کر انہیں روکا جاتا ہے ان کو ایک صوبے میں محدود کر دیا گیا ہے. سب کچھ اجڑنے کے باوجودآج بھی الحمد للہ قبائلی عوام پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا رہی ہیں اج بھی موقع ہے ارباب اختیار کو جاہیے قبائلی عوام کو سینے لگادیں حقیقت یہ ہے کہ قبائلی عوام کے ساتھ ہم نے ان بنگالیوں سے کئ درجے بدتر سلوک کیا جس کے نتیجے میں 1971 میں آدھی ملک سے ہاتھ دھونا پڑا بعض لوگوں کا یہ خیال کہ ہمیں ماضی کو بھول جانا چاہئے یہ عقل و فہم کی کمی کی عکاسی کر تا ہے۔ ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہئے نہ کہ اس کو بھول کر وہی غلطیاں دوہرائیں اور ذلت و تباہی کا شکار ہوں۔

قوم کو اپنی آنکھوں سے وہ سیاہ ترین دن بھی دیکھنا پڑا جب 1971 کوجنرل امیر عبداللہ خان نیازی ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں بیٹھ کر ہندوستانی جنرل اروڑا کے سامنے شکست نامے اور ہتھیار ڈالنے کے معاہدہ پر دستخط کر رہے تھے۔ پوری قوم کئی دن نہ سو سکی، قوم یہی افسوس کرتی رہی کہ اللہ پاک تو نے ہمیں یہ منحوس دن کیوں دکھانے کو زندہ رکھا۔ جس وقت مغربی پاکستان کی فوج نے مشرقی پاکستان میں بد نام زمانہ آرمی ایکشن شروع کیا اس وقت انقلابی مرحوم شاعر حبیب جالب نے یہ قطعہ کہا تھا۔

(1971کے خون آشام بنگال کے نام)
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہر ہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

Arif Ud Din

Arif Ud Din

تحریر : عارف الدین
m.arifuddin14@yahoo.com
mobile# 03333457072