شہزادہ محمد بن سلمان، مسلم دنیا کا نیا رہبر

Prince Mohammad bin Salman

Prince Mohammad bin Salman

تحریر : علی عمران شاہین
سعودی نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے دنیا کا سب سے بڑا ”خود مختار دولت فنڈ ”قائم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے بلومبرگ نیوز ایجنسی کو دیے گئے بیان میں بتایا کہ مملکت نے تیل کے بعد کے مرحلے کے لیے عام سرمایہ کاری کے لیے 20 کھرب ڈالر کا فنڈ قائم کیا ہے۔سعودی نائب ولی عہد کے مطابق سرمایہ کاری میں تنوع ہونا چاہیے، آئندہ بیس برسوں کے دوران مملکت کی معیشت کا بنیادی انحصار تیل پر نہیں ہو گا۔ شہزادہ محمد نے واضح کیا کہ سعودی عرب تیل کی پیداوار کو اسی صورت میں منجمد کرے گا اگر ایران اور تیل پیدا کرنے والے دیگر مرکزی ممالک ایسا کریں گے۔

سعودی عرب کی نئی قیادت خصوصاً دنیا کے کم عمر ترین وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کی مدبرانہ اور قائدانہ صلاحیتوں اورمسلسل بڑھتے اقدامات نے ایک عالم کو ورطۂ حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ سبھی عالمی طاقتیں اور عسکری پالیسی سازادارے اور شخصیات انگشت بدنداں ہیں کہ امریکہ جیسی دنیاکی ہر لحاظ سے سب سے بڑی قوت تو افغانستان میں15سال سے ساری دنیا کو بھی ساتھ ملا کر کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکی اورآج بھی پاکستان کے دروازے پرسجدہ ریزہے اورافغان طالبان سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں۔لیکن شہزادہ محمدبن سلمان نے6ملکوں میں محاذ جنگ کھول کر ہرجگہ ہی کامیابی کے جھنڈے گاڑ کردکھا دئیے ہیں ۔یمن کے حوثی مذاکرات کے لیے بے تاب ہیں۔ بحرین پرسکون ہے۔

امریکہ و یورپ کی قائم کردہ عراق کی حکومت کے عہدیدار اب خود چل کر ریاض کے دورے کررہے ہیں۔ شام کے فرعون بشارالاسد کا سب سے بڑاحامی ‘ پشت پناہ اور مددگار روس دھمکیاں دے دے کرنامراد ہوکر پہلے سعودی حکمرانوں کو اپنے ہاں آنے کی دعوتیں دیتا رہا’ جب کسی طرح بات نہ بن سکی تو اس نے فرار میں عافیت سمجھی۔ سعودی مسلح افواج جن کے پرچم پرکلمہ اور تلوار موجودہیں’ کاماٹو”اللہ اکبر” ہے تو انہوں نے اللہ کی کبریائی کے نعرے بلند کرکے دکھا دئیے ہیں۔

Saudi Arabia

Saudi Arabia

وہی عالمی طاقتیں خصوصاً یورپی یونین اورامریکہ جو کل تک عرب دنیاخصوصاً سعودی عرب کو اپناسب سے بڑا دوست اور اتحادی کہتے تھکتے نہیں تھے’اس سارے عمل کو دیکھ کر اس قدر بھونچکا نظرآنے لگے کہ ان کے دلوں میں چھپاسارابغض’ حسد اور دشمنی کا زہر ابل ابل کر سامنے آنے لگا۔یورپی یونین نے یہ کہہ کرکہ ”سعودی عرب یمن میں بمباری کرکے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہورہاہے”سعودی عرب کواسلحہ فروخت پرپابندی کی قرارداد منظورکی توہالینڈ نے اس کے چند روز بعد اپنی پارلیمان کی قرارداد کے ذریعے پابندی پرعمل درآمد کا اعلان کردیا۔امریکہ جسے اس بات کاایک زمانے سے دعویٰ تھا کہ اس خطے میں سعودی عرب ان کا اصل حقیقی ‘ سب سے بڑا اور دیرینہ اتحادی ہے۔ صدر باراک اوبامہ نے اسی اتحاد کے بارے کہناشروع کردیا” سعودی عرب خطے میں بدامنی پھیلا رہا ہے۔

سعودی عرب ان (امریکہ) سے مفت میں فائدے اٹھاتا ہے۔ اسے ایران کے ساتھ تعلقات بحال کرناہوں گے۔” قبل ازیں اس امریکی صدر نے کہاتھا کہ اسے اس بات پرفخر ہے کہ اس نے شام اور بشارالاسد پربمباری نہیں کی یعنی شام کے حوالے سے بھی امریکی منافقت کا پردہ سعودی پالیسیوں سے چاک ہو کررہ گیا۔ امریکہ کو اس بات کازعم تھاکہ وہ بشارالاسد کے ساتھ ساتھ بدمعاش داعش کامخالف ہے جبکہ سعودی اس حوالے سے اپنی پالیسی واضح نہیں کررہے۔اس پر سعودی عرب نے بشارالاسد کے ساتھ ساتھ داعش کے خلاف لڑنے کے لیے شام میں فوج اتارنے کااعلان کیا تو امریکیوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے کیونکہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ملک متحدہ عرب امارات نے اس آپریشن کی قیادت کے لیے امریکہ کوآگے آنے کی دعوت دی تھی ۔امریکی داعش کے خلاف عملی اقدامات کی بجائے داعش کی طرف سے دنیاکو صرف ڈراتے نظرآتے۔یہ بات بھی کھل کرسامنے آگئی کہ داعش اور اس جیسے گروپوں کے پیچھے اصل توامریکہ ہی چھپا ہوا ہے۔

سعودی عرب کی ان پالیسیوں ‘امت مسلمہ کو عسکری و دفاعی میدانوں میں متحدو یکجان کرنے کے عملی اقدامات نے مسلمانوں کی صفوں میں گھسے آستین کے سانپوں کو بھی بے نقاب کرڈالا۔یہ سنپولئے ہمیشہ مسلمانوں کو اتحاد کے بھاشن دیتے اور تفرقات پر لعن طعن کرتے رہتے تھے لیکن مسلم ممالک کے دفاعی اتحاد کے قیام اورنیٹوکی طرز پر جنگی تنظیم کی تجویزپراب وہی کہہ رہے ہیں کہ یہ مسلم نیٹواتحاد کس کے خلاف ہوگا؟ اس کی ضرورت کیاہے؟ کیا مسلمانوں کے پاس اتنی طاقت اورمال ودولت ہے کہ وہ ایسا اتحاد چلاسکیں؟ خریدے ہوئے اسلحہ اور ایمونیشن سے کبھی فتوحات حاصل نہیں ہوتیں؟وغیرہ وغیرہ۔لیکن اگر معمولی غور سے دیکھاجائے تو تمام درفنطینوں میں ذرا وزن دکھائی نہیں دیتاکیونکہ سعودی عرب نے تو عالمی سپرپاور کے حمایت یافتہ بحرین اوریمنی حوثی باغیوں کے ساتھ ساتھ اب بشارالاسد کوبھی شکست دے کردکھادی ہے۔ اصل مقابلہ توایمان کے ساتھ جرأت’ استقامت اورہمت کرتے ہیں۔

ISIS

ISIS

کچھ حلقوں کی طرف سے یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ اس اتحاد میں ایران و شام شامل کیوں نہیں؟توبات یہ ہے کہ ابھی توبہت سے سنی مسلم ممالک اس اتحاد میں شامل نہیں ۔مثلاً بنگلہ دیش ‘افغانستان اور وسط ایشیا کے کئی ممالک وغیرہ لیکن حیرانی ہے کہ نام صرف ایران کا لیا جاتا ہے۔اصلاً یہ اتحادان مسلم ممالک کاہے جنہیں دہشت گردی اورداعش سے خطرہ ہے۔ ایران دنیا کاوہ ملک ہے کہ جسے کسی قسم کی اندرونی یابیرونی دہشت گردی کاکوئی خطرہ سرے سے نہیں حتیّٰ کہ وہ داعش جسے ایران نے اپنااول دشمن قرار دے رکھاہے’ اس نے بھی آج تک ایرانی مفادات پرمعمولی سا حملہ نہیں کیا۔ اسی لیے توشام کے سابق وزیرخارجہ اورمعروف عرب ڈپلومیٹ الاخضرالابراہیمی کو کہنا پڑا کہ ”داعش امریکہ اور ایران کی ناجائز اولادہے۔ ”اس وقت ایک اکیلا امریکہ ہی نہیں’ سارا یورپ اور باقی دنیابھی ایران کی دوست وحامی ہے توپھر ایران کوایسے اتحاد کی ضرورت ہی کیا ہے۔ رہا مسئلہ شام کا تو ایک ایسا ملک جس کے حکمران نے محض ہوس اقتدار میں اپنے ہی سارے ملک کو کھنڈر میں تبدیل کرکے سارے عوام کو مارمارکر ملک سے بھگادیا ہو اور لاکھوں کو تڑپاتڑپاکر مارکرخوداپنے محل میں محصور بیٹھاہو ‘تواس ایک شخص کو کیسے ملک کا سربراہ تسلیم کرکے کسی عسکری یا بڑے اتحاد کاحصہ بنایا جا سکتا ہے۔

چند روز پہلے ریاض میں ہونے والے مسلم ممالک کے فوجی سربراہان نے سعودی دارالحکومت الریاض میں منعقدہ اپنے پہلے اجلاس میں دہشت گردوں کے وسائل ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔سعودی عرب کے فوجی ترجمان بریگیڈئیر جنرل احمد العسیری نے کہا کہ حال ہی میں تشکیل پانے والے اسلامی اتحاد نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اس کے نظریاتی،میڈیا،مالیاتی اور عسکری پہلوؤں پر غور کیا ہے۔اس فوجی اتحاد میں چونتیس ممالک شامل ہیں لیکن الریاض میں اجلاس میں کل انتالیس ممالک نے شرکت کی ہے۔بریگیڈئیر جنرل احمد العسیری نے کہا کہ اس سے فوجی اتحاد کی اہمیت اور نوعیت کے حوالے سے ایک مضبوط پیغام گیا ہے کیونکہ داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے ایسی فورس کی ضرورت تھی۔انھوں نے بتایا کہ اجلاس میں شریک عہدے داروں نے دہشت گردی کے استیصال کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی پر غور کیا ہے۔ یہ حکمت علی مجوزہ اقدامات پر مبنی ہے۔احمد العسیری نے کہا کہ ”آج کے اجلاس سے اتحاد کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے۔یہ مجوزہ اقدامات پر غور کے لیے ہی بلایا گیا تھا اور اس میں ہم نے کسی انفرادی کیس پر غور نہیں کیا ہے”۔ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے دہشت گردی کے لیے مالی رقوم کے ذرائع کا سراغ لگانے اور اس کو روکنے سے متعلق ایک پیپر پیش کیا ہے۔انھوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ اتحاد بین الاقوامی قانون اور معیارات کے مطابق کام کرے گا۔

انھوں نے اس رپورٹ کو مسترد کردیا کہ کوئی بھی ملک یک طرفہ اقدام کر سکتا ہے۔فوجی ترجمان کا کہنا ہے کہ ”(ممالک کی) خود مختاری کا احترام کیا جاتا ہے اور جو ریاستیں بھی اپنے ممالک میں فوجی مداخلت چاہتی ہیں تو انھیں مشن کی قیادت کرنا ہو گی۔ بوگس اعتراض کرنے والوں کو دیکھنا چاہیے کہ عراق کے وزیرخارجہ کے دورہ ریاض کے بعد اس بات کا اب قوی امکان ہے کہ عراق اس اتحاد کا حصہ ہو گا۔ اگر اس اتحاد کا کوئی خاص مسلکی ‘فرقہ وارانہ یاگروہی معاملہ ہوتا تو پھر اس میں افغانستان ‘بنگلہ دیش اور وسط ایشیاء کے نصف درجن سنی المسلک ممالک سب سے پہلے شمولیت اختیار کرتے۔آخر ان سب کاکوئی نام کیوں نہیں لیتا۔صرف اس لیے کہ اس سے ان کے سازشی نظریے پرزدپڑتی ہے جس کی بناء پر وہ مسلمانوں کو باہم لڑاتے ہیں۔

Logo Imran Shaheen

Logo Imran Shaheen

تحریر : علی عمران شاہین
(برائے رابطہ:0321-4646375)