نجی شعبے کے سولر منصوبوں کو فنانسنگ مسائل کا سامنا

Solar

Solar

کراچی (جیوڈیسک) توانائی کے صنعتی صارفین ان دنوں اپنے روزمرہ کے اخراجات میں کمی اور ماحولیاتی تحفظ کی خاطر متبادل توانائی کی جانب راغب دکھائی دیتے ہیں، تاہم اس ضمن میں پروجیکٹ فنانسنگ ایک ایسا اہم مسئلہ ہے جس کی جانب ابھی تک کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ہے۔

امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں سولر پروجیکٹ فنانسنگ کی مختلف اقسام جیسا کہ تھرڈ پارٹی پاور پرچیز ایگریمنٹ (پی پی اے) اور سولر لیز پہلے ہی مقبولیت کی سند حاصل کرچکی ہیں۔ پاور پرچیز ایگریمنٹ کے تحت ایک انسٹالر کلائنٹ کی پراپرٹی پر زیرو اپ فرنٹ لاگت پر ایک سولر سسٹم نصب کرتا ہے، اس سسٹم کے تحت ڈیولپرز اپنے صارف کو منظور شدہ قیمت پر بجلی فروخت کرتا ہے اور یہ قیمت اس سے کہیں کم ہوتی ہے جو کہ صارف پہلے گرڈ سے حاصل ہونے والی بجلی کے عوض ادا کررہا ہوتا ہے جبکہ سولر لیز کے تحت صارف کو زیرو یا انتہائی کم ابتدائی لاگت کے عوض سولر پلانٹ لیز پر حاصل کرنے کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔

یہ دونوں ماڈلز صارفین کو نہ صرف شمسی توانائی کی مسلسل فراہمی یقینی بناتے ہیں بلکہ انہیں اضافی اخراجات سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بینک اور قرض فراہم کرنے والے مقامی اور بین الاقوامی ادارے اس ضمن میں ایسے پروجیکٹ بنانے والوں کو فنانسنگ فراہم کریں۔ ریون انرجی کے سی ای او انعام الرحمن کا کہنا ہے کہ سولر پینلز کی قیمتوں میں کمی اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے باعث حکومت کے لیے لازمی ہے کہ وہ گھروں اور تجارتی سطح پر شمسی توانائی کی حوصلہ افزائی کے لیے فنانسنگ کے مواقع فراہم کرے، اس وقت ہماری چند بینکوں سے بات چیت جاری ہے جنہوں نے سولر پروجیکٹس کو فنانسنگ فراہم کرنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں جاری توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے سولر پروجیکٹس میں فنانسنگ کے لیے خریدارو ں کے لیے ادائیگی پلان، نیٹ میٹرنگ کی صورت میں گرڈ سے منسلکی اور دیگر تکنیکی معاملات کو ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سولر پاور پروجیکٹس کو فنانسنگ کی فراہمی میں آسانی سے سولر انرجی سیکٹر میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا، پاکستان میں جہاں پورا سال سورج کی روشنی موجود رہتی ہے، شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرکے نہ صرف رہائشی اور تجارتی مراکز کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے بلکہ اس سے ملک میں جاری توانائی بحران میں بھی کمی ممکن ہے۔