پروفیسر حامد حسین شہید نے گولی کا جواب گولی سے دیا

Professor Hamid Shaheed

Professor Hamid Shaheed

چارسدہ (جیوڈیسک) باچا خان یونیورسٹی کے درودیوار شہید ہونے والوں کی یاد میں اداس ہیں، ان شہدا میں پروفیسر حامد حسین بھی شامل ہیں جنہوں نے دہشت گردوں کی گولی کا جواب گولی سے دیا۔

وہ خود تو شہادت کے درجے پر فائز ہوئے لیکن اپنے شاگردوں کو بچا گئے،حملہ آوروں سے دوبدو لڑائی میں زخمی گارڈز نے بھی للکارا ہے کہ ہتھیار چلانے کا اتنا ہی شوق ہے تو آو ٔہمارا جگر آزماؤ۔

باچا خان یونیورسٹی میں دہشت گردوں کے مکروہ عزائم کے سامنے دیوار بننے والوں میں ایک نام پروفیسر سید حامد حسین کا بھی ہے، یونیورسٹی کے کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ میں کلاشنکوف کے برسٹ گونجے تو پروفیسر حامد نے چیخ کر اپنے شاگردوں کو کلاس رومز میں رہنے کے احکامات دیئے اور خود پسٹل لیے دہشت گردوں اور طالب علموں کے درمیان دیوار بن گئے۔

دو طالب علموں نے بتایا کہ ان کے استاد نے دو دہشت گردوں پر فائر کرکے انہیں آگے بڑھنے سے روکا۔32 برس کے پروفیسر حامد نے اپنے شاگردوں کو تو بچالیا لیکن خود کار ہتھیاروں کے آگے زندگی ہار گئے،پروفیسر حامد تو شہید ہوگئے،لیکن شجاعت کی وہ داستاں یاد دلاگئے جو آرمی پبلک اسکول کی شہید پرنسپل طاہرہ قاضی نے رقم کی تھی،اسکول کے بچوں کو بچانے کے لیے جنہوں نے دہشت گردوں کو یہ کہہ کر للکارا تھا کہ میں ان بچوں کی ماں ہوں،مجھ سے بات کرو۔

یہی فولادی عزم ان سیکیورٹی گارڈز کا ہے جنہوں نے اپنے جسموں پر گولیاں کھالیں لیکن دہشت گردوں کو یونیورسٹی آڈیٹوریم میں موجود طلبا تک پہنچنے سے روک لیا،محمد عثمان کا کہنا ہے کہ ہتھیار چلانے کا اتنا ہی شوق ہے تو آؤ ہتھیار والوں کے جگر آزماؤ۔

ذاکر علی بھی فرض نبھا کر سرخرو ہوئے ہیں،جنہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر حملہ آوروں کو روک کر طلبا کے لیے محفوظ راستہ بنایا۔

باچا خان یونیورسٹی میں سوگ کی فضا ہے،ان جانے والوں کی یاد میں جو علم کی شمع جلانے آئے تھے،اپنے پیاروں کی یاد میں ان کی آنکھوں میں پانی ہے لیکن حوصلے جواں ہیں جن کو دشمن چوٹ پہنچانے میں ناکام رہا۔