خوشحال فاٹاخوشحال پاکستان

FATA

FATA

تحریر : شکیل مومند
وفاقی زیر انتظام فاٹا کے 11 قبائلی علاقہ جات ہے جن کی آبادی ایک کروڑ ہے۔ انگریزوں تو یہ نظام اسلئے رواج دیا تھا کہ وہ ہزاروں لاکھوں لوگوں سے براہ راست معاملات کرنے کے بجائے چند سو ملکوں کو اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے۔ کہ وہ اپنی مرضی کے فیصلے فاٹا میں مسلط کردیتے تھے۔ 1849ء میں جب انگریزوں نے سکھوں سے اقتدار حاصل کیا تو اس وقت قبائلی علاقے پنجاب کا حصہ تھے۔ چنانچہ ابتداء میں انگریزوں نے سرحدی قبائل کے ساتھ داخلی رواجات کے عدم مداخلت اور عام جارجیت کے معاہدات کرکے اُنھیں مطیع بنایا۔FCRکو

1867ء میں بنایا گیا اور چند جزوی ترامیم کے بعد 1872ء میں اسے پہلے بار میانوالی کیمل پور (اٹک ) اور معلقہ اضلاع میں نافذ کیا گیا۔ 1879ء میں خیبر ایجنسی کے قیام کے ساتھ ہی FCRکو افغانستان کے سرحدی علاقوں تک وسعت دی گئی ۔ 1892ء میں کرم ایجنسی قائم ہوئی اور ڈیونڈ لائن معاہدے کے دو سال بعد 1897ء میں نارتھ اور سائوتھ ایجنسیوں کے قیام کے ساتھ ہی قبائلی علاقوں میں اجتماعی ذمہ داریوں کے اصول پر مبنی اس قانون کا اطلاق مکمل کرلیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد 1951ء میں مہمند ایجنسی اور 1973ء میں باجوڑ ایجنسی اور اورکزئی ایجنسیوں کا قیام کرکے FCRکے تحت آنے والی انتظامی یونٹس بڑھادئیے گئے۔ لنڈی کوتل چھائونی میں موجود ایک درخت پرانا 118برسوں سے زنجیروں میں جھکڑا ہوا ہے اور اب بھی رہائی کا منتظر ہے۔ 1898ء میں ایک برطانوی فوجی آفسر نشے کی حالت میں دیکھا کہ چھائونی میں درخت اسکی طرف بڑھ رہا ہے۔ اُس نے سپاہی کو حکم دیا۔ کہ درخت کو گرفتار کرلو۔ سپاہی نے درخت کو زنجیروں میں جھکڑ لیا۔

British Atrocities

British Atrocities

اُس پر انگریزی میں ایک تحتی بھی لکھی ہے۔ جس پر لکھا ہے میں زیر حراست ہوں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس درخت کو آج تک زنجیروں میں جھکڑے رکھنے کا مقصد انگریزوں کے مظالم کو یاد رکھنا ہے۔ برطانوی حکا م وہاں کی قبائلیوں کو آج جبر وتشددکے خوف میں مبتلا رکھنے کیلئے انہیں بات بات پر سزائیں دیا کرتے تھے۔ FCRکے خاتمے کے ساتھ اس درخت کو بھی آزاد کرایا جائے۔ 9ستمبر کو فاٹا اصلاحات کمیٹی کے رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کردی گئی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے۔ کہ فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں شامل کردیا جائے۔ اور FCRکا قانون ختم کردیا جائے۔ اور اسکی جگہ مقامی رسومات ورواج پر مبنی رواج ایکٹ نافذ کیا جائے۔ سول فوجداری امور کیلئے جرگہ نظام کو برقرار رکھا جائے۔سپریم کورٹ اور ہائی کور ٹ کا دائرہ اختیار قبائلی علاقوں تک بڑھا یا جائے۔ تعمیر نو کا منصوبہ 2018ء تک مکمل کیا جائے۔ 2017

ء میں فاٹا میں جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کرایا جائے۔ 31دسمبر تک تمام متاثرین کی واپسی یقینی بنائی جائے۔ فاٹا کے عوام نے فوری طور پر صوبے میں ضم کرنے کی مخالفت کردی تھی ۔ کیونکہ آبادی کیوجہ سے اُن کے حقوق متاثر ہونگے۔ فاٹا کی ترقی کیلئے 10سالہ پروگرام بنایا جائے گا۔ 5سال میں میگا پراجیکٹ کے ذریعے ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لایا جائے گا۔ فاٹا میں راہداری کے نام سے ایک ٹیکس تھا جسے ختم کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے فاٹا کی ارکان اسمبلی وسنیٹر کی ایک نگران کمیٹی بنائی جائے گی۔ جوکہ گورنر خیبر پختونخواہ کو مشاور ت فراہم کرے گی۔ سیاسی جماعتوں کی التجاء ہے کہ قبائلی علاقوں میں فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔ اور بلدیاتی نمائندے کو بااختیار بناکر فاٹا کے فنڈز کو بلدیاتی نمائندے کے زیرنگرانی میں خرچ کی جائے۔ اور صوبائی اسمبلی میں سیٹیں قبائلی عوام کا حق ہے ۔ اسکے علاوہ پاک چائنہ راہداری میں بھی فاٹا کو حصہ دیا جائے اورNFCایوارڈمیں بھی قبائلی علاقوں کو پورا حصہ دیا جائے۔ اور فاٹا سیکرٹریٹ کے نظام کو ختم کردیا جائے۔ ہماری دعاہے کہ فاٹا میں خوشحالی اور تبدیلی آئیں۔ خوشحال فاٹا خوشحال پاکستان۔

Shakeel Momand

Shakeel Momand

تحریر : شکیل مومند