پی ایس ایل اور عمران خان

PSL

PSL

تحریر : واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم
پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کھیلا گیا۔ مگر پاکستان کی تاریخ میں ایک یاد رقم کر گیا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے قوم کو اس طرح یکجا ہوتے ہوئے نہی دیکھا تھا جیسے کہ ہماری قوم 5 مارچ کو جوش اور ولولے کے ساتھ متحد اور اور یکجا تھی۔ میں نے بڑوں سے سنا تھا کہ 65 اور 70 کی جنگ میں قوم اسی طرح متحد تھی مگر میں بہت چھوٹا تھا۔ پی ایس ایل کا فائنل صرف کرکٹ کا میچ نہی تھا بلکہ ہماری حکومت اور ہماری پاکستانی قوم کے لئے ایک چیلنج تھا۔ ایک طرف ہمارا دشمن پڑوسی ملک جس نے ہمارے خلاف نفرت انگیز پروپگینڈہ کر کے ہماری کرکٹ کو ایک کونے سے لگا دیا تھا۔

دوسری طرف اسی دشمن نے کرائے کی دہشتگردی کر کے ساری دنیا میں ہمیں بدنام کر رہا تھے ۔ گو کہ ہماری فوج ان کو ناکو چنے چبوا رہی تھی۔ کہ اچانک ایک محب وطن پاکستانی نے بڑے عزم کے ساتھ ایک پلان تیار کیا اور اسے کامیاب بنانے کے لئے جامعہ منصوبہ بندی کی۔ چند کاروباری شخصیات کو ساتھ ملا کر ایک ایسا کام کیا جسے کہ اگر حکومت اپنے طور پر کرتی تو بھی کامیابی کے چانس بہت کم تھے۔ پھر پی ایس ایل کا نام دے کر اس پلان کو عملی جامعہ پہنایا گیا جس سے کہ پاکستان کے دشمنوں کو منہہ توڑ جواب دیا جائے۔ اس کی کامیابی کے مختلف پہلوں تھے۔ ایک جو کہ ہماری کرکٹ کو زنگ لگ رہا تھا دوبارہ چمکنے لگی۔ دوسرا ہمارے کرکٹ کے کھلاڑیوں کی مالی مشکلات کا ازالا بھی ہو گیا۔ تیسرا انٹرنیشنل کھلاڑیوں کو پاکستان لا کر دنیا کو دکھا دیا کہ پاکستان اتنا بھی غیر محفوظ نہی ہے ۔ پی ایس ایل کی کامیابی کا سہرا مکمل طور پر صرف اور صرف نجم سیٹھی کو جاتا ہے۔ دوسرا کریڈٹ پاکستانی عوام کا ہے بل خصوص لاہوریوں کا ہے جنہوں نے دہشتگردوں کے منہہ کالے کئے اور بغیر کسی خوف کے قزافی اسٹیڈ یم کو بھر دیا۔

میں یہ کہتا ہوں کہ اگر قزافی اسٹیڈئم میں ایک لاکھ لوگوں کے بیٹھنے کی بھی گنجائیش ہوتی تو بھی یہ اسٹیڈ یم بھر جاتا۔ جہاں عوام اور پاکستان کی جیت ہوئ وہاں ان خوشیوں کے ساتھ ہی چند افسوسناک بیانات نے اس خوشی کی فضا کو آلودہ کر دیا۔ عمران خان نے پہلے تو لاہور میں فائنل کے انقاد کو پاگل پن قرار دیا اور کہا کہ کوئ بھی دہشتگردی کا واقعہ ہو سکتا ہے۔ عمران خان کے اس بیان کو بھارت کے میڈیا نے زبردست طور پر استمال کیا اور اس کے نتیجے میں بہت سے کھلاڑی یا ان کے خاندان کے لوگوں نے اپنے بچوں کو پاکستان میں کھیلنے سے منع کر دیا۔ مگر پھر بھی پی ایس ایل کے زمہ داروں نے چند معروف غیر ملکی کھلاڑیوں کو پاکستان لا کر عمران خان کے خدشات کو غلط ثابت کر دیا۔ اس پر عمران خان نے غیر ملکی کھلاڑیوں کے پھٹیچر اور ریلو کٹے کہہ کر ان کو بےعزت کردیا۔ ان کھلاڑیوں کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے لاہور میں فائنل کھیل کر پاکستان کے دشمنوں کے منہہ پر طماچہ مارا تھا۔ دوسرے لفظوں میں میں یہ کہونگا کہ یہ کھلاڑی نہ گھر کے رہے نہ ہی کھاٹ کے۔

Imran Khan

Imran Khan

اگر عمران خان اس طرح کا بیان صرف ایک کرکٹر کی حثیت سے دیتا تو شاید یہ ایک چھوٹی سی بات تھی مگر عمران خان اب پاکستان کی دوسری (ووٹوں کے اعتبار سے) بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ اور مستقبل میں (خداناخواسطہ) وزیراعظم بھی بن سکتے ہیں۔ میں زاتی طور پر عمران خان کا بہت بڑا فین تھا۔ مگر ہمارے ملک میں اسے ضرورت سے زیادہ عزت اور وقار دے کر اس کا دماغ خراب کر دیا ہے۔ جہانگیر خان نے تن تنہا دس سال تک پاکستان کوسکوائش کا تاج پہنا کر رکھا۔ جان شیر خان کا بھی یہ ہی کارنامہ تھا۔ کیا عمران خان کا گیارہ کھاڑیوں سمیت کرکٹ کا ورلڈ کپ جتوانا جہانگیر خان سے بڑا کارنامہ تھا۔ 1992 کے فائنل سے اگر صرف وسیم اکرم اور جاوید میاںداد کی کارکردگی کو منفی کر دیں تو عمران خان کبھی بھی فائنل نہی جیت سکتے تھے۔ مگر واہ ری ہماری قوم ورلڈ کپ کا سہرا صرف ایک عمران خان کو دیا جاتا ہے۔ آج بھی ایک پروگرام میں خان صاحب نے نجم سیٹھی کو دوبارہ گھٹیا کہا جس نے بغیر کسی سیاسی ،سماجی لالچ کے قوم کو وہ خوشیاں فراہم کی جن کا وہ انتظار کر رہے تھے۔ عمران جن کو پھٹیچر کہہ رہا تھا وہ دو بار ٹی ٹونٹی کی ورلڈ چیمپئین ٹیم کا کپتان تھا۔

خان صاحب ایک بار ورلڈ کپ کے کپتان بن کر اسے کیش کروا رہے ہیں مگر ان کے لئے وہ کھلاڑی پھٹیچر ہیں جو آج کے دور کی پاور گیم جیسا مشکل کھیل کھیل رہے ہیں۔ کیا پاکستان کا نام صرف عمران خان نے روشن کیا ہے۔ کیا حسن سردار، کلیم اللہ، ایم ایم عالم، نور خان، سسل چوہدری، ارفعہ کریم، ملالہ یوسف زئ، نصرت فتح علی خان، جاوید میاں داد ، وسیم اکرم وغیرہ کو اپنے ناز نخرے اٹھوانے کو کوئ حق نہی کیا دنیا میں شعیب اختر سے زیادہ تیز بالینگ کسی نے کی اور کیا عمران خان شعیب اخترسے زیادہ تیزرفتار بالر تھے۔ عمران خان اور ان کی جماعت کے لوگوں نے بجائے اپنے بیان پر معزرت کرنے کے لفظ پھٹیچر کی ایسی تشریع کی ہے کہ عقل دنگ رہ جائے۔ ایک ٹی وی شو میں عمران خان فرماتے ہیں کہ پھٹیچرکوئ برا لفظ نہی ہے بلکہ اسے میں نے غیر معروف کے زمرے میں استمال کیا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر یہ کھلاڑی خان صاحب کے لئے پھٹیچر ہیں تو ان کی ڈکشنری کے حساب سے تو خان صاحب بھی ایک تہائ دنیا کے لئے پھٹیچر ہوئے۔ کیا جرمن، سویڈن، ڈنمارک، جاپان، چلی، برازیل، ارجنٹائین وغیرہ وغیرہ میں لوگ عمران خان کو جانتے ہیں؟۔ تحریک انصاف کے ایک راہنما تو ایک ٹی وی پروگرام میں ایک ہاتھ آگے بڑھ گئے کہتے ہیں کہ جو کسی کام کا نہ ہو اسے پھٹیچر کہتے ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہمارے بزرگ ایک طویل عمر کے بعد بیماری یا ضحیفی کی وجہ سے کچھ نہی کر سکتے تو اگر پھٹیچر بقول تحریک انصاف کے کوئ برا لفظ نہی ہے تو کیا ہم اپنے بزرگوں کو پھٹیچر کہہ سکتے ہیں؟۔ ریلو کٹا کی تاویل دیتے ہیں کہ بارواں کھلاڑی ریلو کٹا ہوتا ہے۔ ارے بھائ مہزب معاشرے میں آپ کسی کو بھی ان لفظوں سے نہی پکار سکتے۔ ابھی یہ تماشہ ختم نہی ہوا کہ مراد سیعد نے اپنی باپ کی عمر کے جاوید لطیف کو مکا مار دیا۔ بات شاید یہاں ختم ہو جاتی مگر عمران خان اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ میں اگر مراد سعید کی جگہ ہوتا تو اور بہت کچھ کرتا۔ میں عابد شیر علی، خواجہ آصف اور رانا ثناء اللہ کو بد زبان کہا کرتا تھا مگر اب بدزبانوں کی فہرست مزید طویل ہو گئ ہے۔ خدا خیر کرے ہمارے ملک پر۔

Watson Gill

Watson Gill

تحریر : واٹسن سلیم گل،ایمسٹرڈیم