تحریک انصاف پاکستان میں بھی جمہوریت چلنے دے

Imran khan

Imran khan

تحریر : محمد اشفاق راجا
آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے 10 ویں انتخابات میں غیرحتمی، غیرسرکاری نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے41 میں سے 31 نشستیں جیت کر میدان مار لیا۔ مسلم کانفرنس اور پیپلزپارٹی کو تین تین اور تحریک انصاف کو صرف 2 نشستیں ملیں جبکہ ایک نشست مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جموں و کشمیر پیپلز پارٹی لے گئی جبکہ بیرسٹر سلطان محمود سمیت کئی برج الٹ گئے۔ وزیراعظم چودھرری عبدالمجید اپنی نشست بچانے میں کامیاب ہو گئے۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے ممکنہ امیدوار راجہ فاروق حیدر بھی جیت گئے۔ مسلم لیگ (ن) کے اتحادی اور جے کے پی پی کے سربراہ سردار خالد ابراہیم نے 26415 ووٹ لے کر صدر آزاد کشمیر کی صاحبزادی فرزانہ یعقوب کو شکست سے دوچار کردیا۔ خواتین اور لیبر کی مخصوص نشستوں کے انتخاب کے بعد کسی جماعت کو حکومت سازی کیلئے سادہ اکثریت کے تحت 25 نشستیں درکار ہوتی ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) نے مخصوص نشستوں کے انتخاب سے قبل ہی سنگل مجارٹی پارٹی کی پوزیشن حاصل کرلی ہے۔

10 اضلاع میں کل 5427 پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے تھے جبکہ 8046 پولنگ بوتھ بنائے گئے تھے انتخابات میں کل 26 سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ انتخابات میں 8 خواتین امیدواروں نے بھی حصہ لیا 3 خواتین نے آزاد حیثیت میں، 2 نے پیپلز پارٹی، ایک نے مسلم لیگ (ن) اور ایک نے مسلم کانفرنس جبکہ ایک خاتون نے متحدہ جموں کشمیر نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر براہ راست انتخابات میں حصہ لیا۔ 41میں سے 29 نشستوں کیلئے پولنگ آزاد کشمیر میں ہواجبکہ 12 کیلئے پاکستان کے مختلف شہروں میں رہنے والے کشمیریوں نے ووٹ ڈالے۔ایل اے 3 میرپور مسلم لیگ (ن) کے چودھری محمد سعید کامیاب ہو گئے جبکہ پی ٹی آئی کے بیرسٹر سلطان محمود دوسرے نمبر پر رہے۔ چودھری سعید نے 19514 اور بیرسٹر سلطان نے 16397 ووٹ حاصل کئے۔

آزاد کشمیر کے انتخابات میں یہ تحریک انصاف کی پہلی انٹری اوربلاول بھٹو کی پہلی انتخابی مہم جوئی تھی۔ دونوں وہ نتائج حاصل نہیں کرسکے جس کی ان کو توقع تھی تاہم تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے جمہوری رویے کا اظہار کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کو کامیابی پر مبارکباد دی جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی نے دھاندلی کا الزام لگا کر نتائج کو مسترد کردیا۔ انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنا ہماری قومی سیاست کا المیہ ہے جس کا اظہار ہر الیکشن کے بعد ہوتا ہے۔ تحریک انصاف آزاد کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود نے مسلم لیگ (ن) پر ووٹ خریدنے کا الزام عائد کیا۔ بیرسٹر صاحب خود اپنی سیٹ بھی ہار گئے’ وہ اپنی شکست کے اصل عوامل پر غوروخوض کریں’ عمران خان کی طرف سے نتائج تسلیم کرنے کے بعد پی ٹی آئی کے کسی رہنماء کے الزامات اور دعوئوں کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔

PPP

PPP

پیپلزپارٹی آزاد کشمیر کے ترجمان کہتے ہیں کہ سائنٹفک طریقے سے پری پول گنگ ہوئی ہے۔ آزاد کشمیر میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی’ جب پری پول رگنگ ہو رہی تھی تو کیا اسکی لیڈر شپ سو رہی تھی۔ شکست دیکھ کر دھاندلی کا واویلا شروع کردینا جمہوری رویہ نہیں ہے۔ آزاد کشمیر میں عموماً وہی پارٹی جیتتی رہی ہے جس کی مرکز میں حکومت ہو۔ آزاد کشمیر میں گزشتہ انتخابات 2011ء میں ہوئے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب پیپلزپارٹی کے کرپشن کے سکینڈل عام تھے۔ رینٹل پاور میں گھپلے نہ صرف سامنے آرہے تھے بلکہ اربوں روپے کی ریکوریاں بھی ہو رہی تھیں’ حج معاملات میں بدعنوانی اور بے ضابطگیاں عیاں ہو رہی تھیں۔ بیڈگورننس کے تمام لوازمات پورے ہوچکے تھے اسکے باوجود پیپلزپارٹی نے آزاد کشمیر میں انتخابات جیت کر حکومت بنائی اور مسلم لیگ (ن) کے جمہوری رویوں کے باعث اپنی آئینی مدت بھی پوری کرلی۔ پیپلزپارٹی کے بعض ارکان کو ساتھ ملا کر وزیراعظم چودھری عبدالمجید کیخلاف مسلم لیگ (ن) عدم اعتماد کی پوری تیاری کرچکی تھی’ وزیراعظم نوازشریف کے کہنے پر چودھری عبدالمجیدعدم اعتماد سے بچ گئے۔

مسلم لیگ (ن) کے آزاد کشمیر کے انتخابات میں فتح یاب ہونے کا امکان تو موجود تھا مگر تجزیہ کاروں کیلئے مسلم لیگ (ن) کی اتنے بڑے مارجن سے کامیابی حیران کن ہے۔ کچھ حلقے تو پانامہ لیکس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے امکانات معدوم ہوتے بھی دکھا رہے تھے مگر پیپلزپارٹی حکومت کی بیڈگورننس اور تحریک انصاف میں دھڑے بندی کے باعث ہی مسلم لیگ (ن) کی بڑے مارجن سے کامیابی ممکن ہوئی۔آزاد کشمیر میں انتخابات کے حوالے سے مثالی صورتحال تو یہ ہے کہ آزاد ریاست کی پارٹیاں ہی ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں۔ اس سے شاید سیاست میں کچھ شائستگی بھی دیکھنے کو ملے۔ پاکستان سے آزاد کشمیر میں جا کر پارٹی تشکیل دینے اور الیکشن لڑنے کی بدعت کا آغاز پیپلزپارٹی نے کیا۔

آج آزاد کشمیر کی سیاست میں پاکستان کی سیاست والی خرافات پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ گزشتہ روز پولنگ کے دوران مختلف شہروں میں لڑائی’ جھگڑوں’ دھینگا مشتی’ دست و گریباں ہونے اور فائرنگ کے واقعات میں درجن بھر افراد زخمی ہو گئے۔ پاکستان میں موجود پولنگ سٹیشنز پر بھی لڑائی جھگڑے ہوتے رہے۔کہیں جعلی ووٹنگ کے الزامات کہیں عملے کی ناتجربہ کاری کے واقعات بھی سامنے آئے اور کہیں الیکشن کمیشن کی غفلت دکھائی دی۔ وہ الیکشن کمیشن جس نے سپیکر آزاد کشمیر اسمبلی کو نااہل قرار دینے میں بڑی پھرتی دکھائی اس نے سکھر میں دو ووٹرزاور لاڑکانہ میں ایک ووٹر کیلئے الگ الگ پولنگ سٹیشن بنا رکھے تھے۔ ان ووٹرز سے ڈی سی او یا کمشنر آفس میں ووٹ کاسٹ کرایا جا سکتا تھا۔ الیکشن کمیشن کا سٹاف ان ووٹروں سے گھر جا کر بھی ووٹ پول کراسکتا تھا۔ عملہ سارا دن ان تین ووٹروں کا منتظر رہا مگر انہوں نے ووٹ کاسٹ کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔

Bilawal Bhutto

Bilawal Bhutto

بلاول بھٹو کو اپنی پہلی انتخابی مہم میں اپنے بڑوں کے کرداراور انکی عوام کش پالیسیوں کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ گزشتہ دور میں پیپلزپارٹی کو اسکی پانچ سالہ پالیسیوں سے جو نقصان اٹھانا پڑا اس کا ازالہ تو شاید 2018ء کے الیکشن میں بھی ممکن نہ ہوسکے۔ مگر بلاول اپنی شب و روز کی محنت اور پارٹی کو بدنام کرنیوالوں کو پارٹی امور و معاملات سے الگ کرکے پارٹی ساکھ کو بحال ضرور کرسکتے ہیں۔وزیر امور کشمیر برجیس طاہر نے مسلم لیگ (ن) کی فتح پرکہا ہے کہ نتائج عمران خان کی دھرنا سیاست کیخلاف ریفرنڈم ہے۔ شہباز شریف کہتے ہیں کہ عوام نے الزامات کی سیاست مسترد کردی۔ مسلم لیگ (ن) کو جشن فتح منانے کا پورا حق ہے مگر اسکے ساتھ طعن و تشنیع کے بجائے اس کامیابی پر اللہ کا شکر ادا کرے۔ بعض حلقے غلام محی الدین دیوان کی لاہور سے فتح کو تحریک انصاف کی طرف سے مسلم لیگ (ن) کے قلعہ میں نقب سے تعبیر کررہے ہیں۔ ایسا کہہ کر تحریک انصاف کی ہزیمت کا داغ نہیں دھویا جا سکتا۔

آزاد کشمیر میں ایک انتخابی مرحلہ مکمل ہوچکا’ مسلم لیگ (ن) کیلئے وہاں حکومت بنانے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ باقی پارٹیوں کو جو بھی عوامی مینڈیٹ ملا ہے’ وہ اسکے مطابق آزاد کشمیر کی ترقی و خوشحالی اور عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے کردار ادا کریں۔ عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کی جیت پر اسے مبارکباد دے کر ایک اچھی اور خوشگوار روایت قائم کی ہے۔ عمران خان سے سیاست میں مزید مثبت رویوں کی توقع ہے۔ ان کا پانامہ لیکس کے حوالے سے وزیراعظم کے احتساب کا مطالبہ درست ہو سکتا ہے مگر مطالبہ منوانے کیلئے سڑکوں پر آنے کا فیصلہ خودمختار پارلیمنٹ اور آزاد عدلیہ کی موجودگی میں مناسب نہیں ہے۔ جہاں تک عوامی مینڈیٹ کا تعلق ہے جس کی بنیادپر جمہوری نظام کھڑا ہوتا ہے تو وہ آزاد کشمیر کے انتخابات میں نظر آگیا ہے۔

عوام پر اپوزیشن کے حکومتی پارٹی پر کرپشن’ بے ضابطگیوں اور لوٹ مار کے الزامات کا کتنا اثر ہوا ہے ‘ اس کا اظہار آزاد کشمیر کے انتخابی نتائج سے بخوبی ہو سکتا ہے اس لئے اب عمران خان اپنی دھرنا سیاست سے ہٹ کر جمہوریت کیلئے پاکستان کے عوام کے مینڈیٹ کو بھی تسلیم کریں اور اسے چلنے دیں۔ وہ اگلے انتخابات میں عوامی مینڈیٹ تبدیل کرانا چاہتے ہیں تو انہیں اس کیلئے آزاد کشمیر کے انتخابات میں اپنی پارٹی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ہوم ورک کرنا اور بہترین انتخابی حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔ محض حکومت مخالف تحریک سے عوامی مینڈیٹ تبدیل نہیں کرایا جا سکتا۔

Muhammad Ashfaq Raja

Muhammad Ashfaq Raja

تحریر : محمد اشفاق راجا