عوامی کھال اتارنے اور خون پینے والا مشہور خادم

Ishaq Dar

Ishaq Dar

تحریر : منظور احمد فریدی
ہمارے وزیر خزانہ محترم اسحاق ڈار صاحب نے فرمایا کہ اگر دالیں مہنگی ہیں تو عوام چکن کھائیں ہمارے اکثر اراکین اسمبلی اس قسم کے بیانات سے نوازتے رہتے ہیں جنہیں پڑھ کر عوامی بلڈ پریشر بڑھتا رہتا ہے ۔میرے اکثر قارئین مجھے انتہا پسند قدامت پسند اور پتہ نہیں کن کن القابات سے نوازتے رہتے ہیں مگر ان سب باتوں میں میرے لیے جو تسکین کا باعث بات ہے وہ یہ ہے کہ میرے قارئین گنتی کے چند لوگ ہی سہی مگر انہیں میرا کالم پڑھنے میں دل چسپی اور میرے اگلے کالم کا انتظار ہوتا ہے اور شائد انہیں مہربانوں کی وجہ سے مجھ سا کم علم بندہ بھی جب قلم اٹھا لیتا ہے تو خود بخود ہی الفاظ جڑتے جاتے ہیں او ر ایک کالم بن جاتا ہے ۔خیر تنقید کے بغیر اصلاح ہی ممکن نہیں مجھے بے حد خوشی ہوتی ہے جب کوئی قاری مجھے سمجھا رہا ہوتا ہے اللہ انہیں سلامت رکھے (آمین) بات چلی تھی وزیر خزانہ کے اس بیان سے جس میں انہوں نے کہا کہ جو دال افورڈ نہ کرسکے وہ مرغی کھالے۔

اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کا یہ المیہ ہے کہ آغاز سے ہی اس کی باگ ڈور سنبھالنے والے لوگ کچھ ایسے آئے جنہیں کبھی بھی اپنی اصل ذمہ داری کا مطلق احساس ہی نہ تھا یا ان میں اہلیت نہ تھی اپنی بات کے دعویٰ میں ایک ایسی دلیل دے رہا ہو ں جس سے بہت کم لوگ واقف ہیں جو یہ ہے کہ ایک ایسی ریاست جو صرف کفر و اسلام کے فرق کو مدنظر رکھ کر بنائی گئی اور لوگوں نے اپنا سب کچھ محض اس بنا پر قربان کردیا کہ اس ریاست میں وہ اسلامی معاشرہ میسر ہوگا جس کا ذکر اب محض کتابوں میں رہ گیا ہے رسول کریمۖ کا تشکیل کیا ہوا وہ معاشرہ جس میں ہر انصاری نے اپنے مہاجر بھائی کو اپنا آدھا مال دیکر گلے لگا لیا تھا مگر یہاں تو مہاجرین کے کیمپوں سے رات کو نوجوان لڑکیاں غائب ہوتی رہیں کچھ راہزنوں سے لٹے لوگ کچھ راہبروں نے لوٹا کے مصداق ہزاروں مہاجرین ایسے تھے جن پر راستہ میں سکھ یا ہندو ئوں کے جتھہ دار بلوائیوں نے حملہ کیا اور انکے سامنے انکی جوان بیٹیوں کو بے آبرو کیا اور مردوں کو ان کلیوں کے سامنے کرپانوں پر ٹانگ کر قہقہے مارتے رہے۔

سینکڑوں ایسے بھی قافلے آئے جنہیں جہاں بلوائیوں کے حملہ کا شبہ ہوا جوان بیٹیوں کا گلہ دبا کر اپنے ہاتھوں مار دیا اور خود لڑتے مرتے یہاں پہنچ آئے ۔تاریخ ایک وہ باب ہے جسکا نہ تو کسی مذہب سے تعلق ہوتا ہے نہ کسی مخصوص سیاسی گروہ سے جب یہ رقم ہو رہی ہوتی ہے تو راقم کو یہ علم نہیں ہونے دیتی کہ کل اسے کن الفاظ سے یاد کروائے گی بالکل اسی طرح ہمارے اس وقت کے ارباب اختیار کو بھی شائد یہی بھول ہو کہ وہ جس اسلامی ریاست کا خواب دکھا کر عوام سے اتنی بڑی قربانی مانگنے جارہے ہیں یہ عوام قربانی دینے کے بعد اسکا حساب بھی مانگے گی۔

Rule Of Law

Rule Of Law

ارباب اختیار کی نیک نیتی اور مملکت کی بد بختی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس اسلامی ریاست کے لیے اسلامی قوانین بنانے کے لیے جو پہلا وزیر قانون مقرر کیا گیا وہ ایک ہندو تھا جو شرم کے مارے چند یوم کی رخصت پر چلا گیا اور پھر ہندوستان سے واپس نہیں آیا ،یہ تو پرانی بات ہے میں نے ایک ایسی اسمبلی دیکھی اس ملک کی جس میں تپ دق (ٹی بی ) کا مریض ہمارا وزیر صحت رہا اسمبلی میں حاضری کے وقت انگوٹھا لگانے والا شخص تعلیم کا قلمدان لے کر وزارت تعلیم سنبھالے ہوے تھا اور ایک ایسا شخص زراعت کا وزیر تھا جس نے ایک دن اپنے مشیر سے پوچھا کہ یہ گندم کا درخت کتنا بڑا ہوتا ہے اللہ اور اللہ کے پاک رسولۖ کے ارشادات کی روشنی میں کسی بھی قوم کی حالت اس وقت تک تبدیل نہیں ہوتی جب تک وہ خود نہ کرے یہ بات ہمارے سروں پہ مسلط حکمران طبقہ بخوبی جانتا ہے۔

اسی لیے اس نے کبھی اس قوم کو ایسا سوچنے کا وقت ہی نہیں دیا عوام کو دو وقت کی روٹی کے چکر میں الجھا کر رکھا ہوا ہے ۔میٹرو بس اور میٹرو اور نج ٹرین پہ اربوں روپے روپے کمانے کے چکر والے حکمران زراعت کو اتنا بد حال کرگئے کہ زمیندار بھی اپنی فصل ہونے کے باوجود دھرنوں پر مجبور ہو گیا ۔اب کوئی بھوک مٹانے کو بچے بیچے یا میٹرو ٹریک پر خود کشی کرے عید کے کپڑے مانگنے پر بچوں کو قتل کرکے خود کشی کرے یا بچوں سمیت نہر میں کود جائے۔فاقہ کشی سے مجبور کوئی ماں اپنی عزت نیلام کرے یا وہ بھی پنکھے سے جھول جائے جس شخص کو کبھی بازار جانے کا بھی اتفاق نہ ہوا ہو ،روٹی کے وقت نوکر چاکر قطاریں بنائے کھڑے ہوں ایک دن کا فاقہ نہ دیکھا ہو اسے کیا پتہ کہ دال کی قیمت میں چکن کیسے ملتا ہے۔

خدا ہمیں جب ہمارے کرتوتوں کی سزا سے آزاد کر دیگا تو یہ چکن والے میٹرو والے کپتان امپائر سب ڈھونڈنے سے بھی نہ ملینگے مگر اس کے لیے ہمیں بھی اس حقیقی خالق و مالک سے رجوع کرنا ہوگا اپنے گناہوں کی معافی اور توبہ کرنا ہوگی پھر یہ نہیں ہونگے کوئی اللہ کا کوئی ایسا بندہ اس قوم کا حکمران ہوگا جسے امیر المومنین جناب عمر فاروق کا یہ فرمان یاد ہوگا کہ دریائے نیل کے کنارے اگر کوئی بکری کا بچہ بھی بھوک سے مر گیا تو اسکا حساب بھی عمر نے دینا ہے وہ میٹرو ٹرین موٹروے سے ہٹ کر عوام کا دکھ درد سمجھے گا کب یہ ہم پر ہی منحصر ہے کہ ہم اپنے اللہ کو اس بات پر کب راضی کرلیتے ہیں والسلام۔

Manzoor Faridi

Manzoor Faridi

تحریر : منظور احمد فریدی