عوام کا آخری سہارا سپریم کورٹ

Supreme Court

Supreme Court

تحریر : میر افسر امان
پاکستان کے عوام کی نظریں اپنی سپریم کورٹ پر لگی ہوی ہیں کہ وہ ملک کو موجودہ بحران سے نکالے گی۔ سیاست دان ملک کو بحران سے نکالنے میں سنجیدہ نہیں ہیں ان کو تو اپنی کرسی کی پڑی ہوئی ہے۔ ٢٠١٣ء کے الیکشن میں ہارنے سیاست دان بھی جیتنی والی پارٹی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ حکومت کے قائم ہوتے ہی کہتے رہے کہ الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔ اس میں سب سے بڑا اعتراض وزیر اعظم صاحب کے بیان جو الیکشن میں ووٹوں کی گنتی کے کچھ گھنٹے پہلے دیا گیا تھا کہ” مجھے ٹو تھرڈ مجارٹی چاہیے” اپوزیشن کہتی ہے کہ یہ ٹو تھرڈ مجارتی کس قوت سے مانگی جاری تھی۔تحریک انصاف نے مطالبہ کیا کہ صرف چار حلقے کھولے جائیں تو پتہ چل جائے گاکہ ہم صحیح کہہ رہے ہیں یا غلط۔پیپلز پارٹی کہہ رہی تھی کہ یہ الیکشن آر اوز کے الیکشن تھے۔

ملک کی بائیس سیاسی جماعتوں نے الیکشن میں دھاندلی ہونے کا کہا ۔ لاہور میں ایک جماعت کے کئی کارکن پولیس کی فائرنگ سے شہید ہوئے۔ احتجاجی جلسے جلوس شروع ہوئے پھر بات دھرنے تک پہنچی۔ ایک دھرنے والے نے تو کارکنوں کے لیے قبریں اور کفن تیار کر لیے تھے۔ ہر روز کہتے رہے کہ آج یا کل انقلاب آنے والا ہے اور حکمران بس جانے والے ہیںپھر ایک دن انہوں نے اپنے خیمے اُکھاڑ دیے اور عازم سفر ہوئے اور کوئی تبدیل نہیں آئی۔دوسرے صاحب بھی تھک گئے تھے۔ ایسے میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول کا خونین واقعہ پیش آیا تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں نے سیکڑوں محصوم بچوں کو چن چن کر شہید کر دیا۔ ساری قوم غم میں نڈھال ہو گئی۔ دوسرا دھرنا بھی ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ فوج اور سیاست دانوں نے آل پارٹی کانفرنس میں بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا۔

آئین میں تبدیلی کی گئی اور اس طرح ذرائع کے مطابق سیاستدانوں کی مرضی سے پاکستان میں جمہوری مارشل لاء لگا دیا گیا۔ بیس نکاتی نیشنل ایکشن پالان کے تحت فوج نے ضرب عضب شروع کر کے تندہی سے ایکشن لے کر دہشت گردوں کو ختم کیا۔ اس میں پاک فوج کے نوجوانوں نے شہادتیں پیش کیں جو قوم ہمیشہ یاد رکھے گی۔ اس فوجی ایکشن کے تحت پاکستان کے شہری اپنے ہی ملک میں بے گھر ہوئے ۔ بے انتہا تکایف برداشت کیں اللہ ان کی قربانیاں قبول فرمائے۔ اب بے گھر ہونے والے اسی فی صد شہری اپنے گھروں کو جا چکے ہیں۔ انشا اللہ باقی بھی جلد از جلد اپنے گھروں میں چلے جائیں گے۔ ایک قوم پرست لسانی دہشت گرد تنظیم کی وجہ سے کراچی کا امن تباہ برباد ہو گیا تھا۔ کراچی کے ہزاروں لوگ شہید ہو چکے تھے۔ فوجی ایکشن کی وجہ سے کراچی میں روشنیاں واپس لوٹ آئی ہیں۔ فوج کی ہائی کمان تبدیل ہونے کے بعدنئے سرے سے ضرب الفساد کے نام سے پورے ملک میں کوبنگ آپریشن شروع ہے۔ جگہ جگہ دہشت گرد پکڑے جا رہے ہیں۔ اللہ سے دعا ء ہے کہ جلد از جلد ملک سے دہشت گردی ختم ہو۔ اسی دوران دنیا کے کچھ صحافیوں نے پانا لیکس کے انکشاف کیا۔ جس میں دوسرے ملکوں کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کے حکمران کے بچوں کے نام سامنے آئے۔

دنیا کے دوسرے ملکوں نے تو اپنے ملکوں میں پاناما لیکس کے مسئلہ کو، کہیں استعفیٰ دے کر اور کہیں عدالتی کاروائی کے ذریعے سے حل کر لیا ۔ ہمارے ملک میں ایسا نہ ہوسکا۔ ملک کے وزیر اعظم صاحب نے دو دفعہ الیکٹرونک میڈیا پر ایک دفعہ پارلیمنٹ میں تقریر کر عوام سے وعدہ کیا کہ عدالتی کمیشن قائم کر کے اس مسئلے کو حل کر لیا جائے گا۔ عدالت کو اس مقصد کے لیے خط لکھا گیا ۔عدالت نے نئے ٹی ا و آر بنانے کا حکم دیا۔ اپوزیشن اور حکومت ٹی او آر بنانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کر دی گئی۔ جماعت اسلامی نے اس سے قبل ہی کرپشن کے خلاف مہم جاری کی ہوئی تھی۔ تحریک انصاف نے بھی کرپشن کے خلاف مہم چلائی ہوئی تھی۔ دونوں جماعتوں نے ملک میں کرپشن کے خلاف دھرنے اور جلسے کئے۔ جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور عوامی مسلم لیگ نے قانونی راستہ بھی اختیار کیا اور سپریم کورٹ میں وزیر اعظم صاحب کے بچوں کے برطانیہ میں فلیٹ کے متعلق منی ٹریل کا کہا۔اس سے قبل چیف جسٹس صاحب نے لارجربینچ قائم کیا۔ مگر ان کی ریٹائرمنٹ کا وقت آ گیا۔ پھر موجودہ جیف جسٹس صاحب نے نیا لارجر بینچ قائم کیا۔

اس بینچ نے کیس کی نوئیت دیکھتے ہوئے روزانہ کی بنیاد پر کاروائی جاری رکھی۔ کیس سننے کسے پہلے ہی تمام فریقوں سے تحریر لی کہ سب نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو ہر حالت میں تسلیم کرنا ہو گا۔تمام فریقوں کو اپنے اپنے مقدمے کے حق میں ثبوت پیش کرنے کاپورا موقعہ فراہم کیا۔ پیپلز پارٹی ایک طرف بیٹھ کر نظارا کرتی رہی۔ جب کرپشن میں ان کے لوگ پکڑے گئے تو حکومت کے خلاف بول رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے ریماکس دیے کہ ایسا فیصلہ سنایا جائے گا کہ مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ پانچ کے پانچ جج صاحبان نے اپنا اپنا فیصلہ علیحدہ علیحدہ لکھا۔دو جج صاحبان نے وزیر اعظم صاحب کو عہدے سے فارغ کرنے کا لکھا اور تین جج صاحبان نے لکھا کہ وزیر اعظم صاحب کو ساٹھ دن کا مزید موقعہ دیا جائے اور فیصلے کے سات دن کے اندر اندر ایک جائنٹ انوسٹٹیگین ٹیم بنائی جائے جس میں فوج ، نیپ، اسٹیٹ بنک وغیرہ کے نمائندے شامل ہوں۔ یہ کمیٹی ساٹھ دن کے اندر منی ٹریل کی انوسٹٹیگیش کر کے عدالت کے سامنے پیش کرے۔اسکے بعد آخری فیصلہ سنایا جائے گا۔صاحبو! قوم تو مسائل میں پھنسی ہوئی ہے۔ پاکستان کو توڑنے کے لیے بین الاقوامی طور پر گریٹ گیم جاری ہے۔ملک کی سرحدوں پر حملے ہو رہے ہیں۔

ہمارے ازلی دشمن بھارت دنیا میں ہمیں تنہا کرنے اور دہشت گرد ملک ثابت کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ ملک میں دہشت گرد کاروائیاں جاری ہیں۔بھارت پاکستان بھرمیں جاسوسی کا نیٹ ورک چلا رہا ہے۔ مہنگاہی زوروں پر ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے ایک طرف انڈسٹری کو نقصان پہنچایا ہے تو دوسری طرف گرمی میں لوگ نڈھال ہو رہے ہیں۔ ملک کی تیار کردہ اشیا بیرون ملک در آمند نہیں ہو رہیں ہیں۔ بیرونی قرضوں کا بوجھ اتنا بڑھ گیا ہے کہ پاکستان کاہر شہری سوا لاکھ کا مقروض ہو گیا ہے۔فوج اور عدلیہ کے علاوہ پاکستان کے سارے اداروں پر سیاست دان اور حتہ کہ سپریم کورٹ کے جج بھی ریمارکس دے چکے ہیں کہ ملک کے ادارے صحیح کام نہیں کر رہے۔ سیاست دان اپنی کرسی بچانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتاہے کہ جب دو ججوں نے وزیر اعظم کو فارغ کرنے کا کہا اور تین ججوں نے بھی امین اور صادق تو نہیں مانا۔ صرف ساٹھ دنوں کی مہلت دی۔ ایسی صورت حال میں وزیر اعظم صاحب کو مستعفیٰ ہو جانا چاہیے تھا اور اپنی پارٹی کے کسی دوسرے شخص کو وزیر اعظم بنا کر فیصلہ کا انتظار کرتے اگر فیصلہ ان کے حق میں ہوتا تو دوبارا وزیر اعظم بن جاتے اس طرح بحران ختم ہو جاتا۔ وہ تو مٹھایاں تقسیم کر رہے ہیں کہ کرسی بچ گئی۔ اس میں شک نہیں کہ مسلم لیگ نون کو عوام نے ووٹ دیا ہے ان کو پانچ سال حکومت کرنے کا حق ہے۔ مگر ملک کو بحران سے نکالنے کی ذمہ داری بھی ان ہی کے کندھوں پر ہے۔ ذرائع کہتے ہیں سیاست دانوں نے ملک کو بحران سے نکالنے میںبہت دیر ہو گئی۔ ساٹھ دن میں رپورٹ آنے کے بعد اگر ایک ہفتہ کے اندر فیصلہ سنا دیا جائے تو قوم اس بحران سے نجات پا سکتی ہے۔ عوام کا آخری سہارا سپریم کوٹ ہے۔ اسی پر عوام کی نظریں لگی ہوئیں ہیں۔اللہ پاکستان کا محافظ ہو آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان