پپو اور چرسی

Punjab Assembly

Punjab Assembly

تحریر : روہیل اکبر
پنجاب اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو مختلف اراکین اپنے اپنے سوالوں پر بحث کر رہے تھے جواب دینے والے حکومتی رکن کسی بھی سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دے پارہے تھے ہر نامکمل اور غیر تسلی بخش جواب پر اپوزیشن بنچوں سے شور بلند ہوتا کہ اس مسئلہ کو بھی جے آئی ٹی کے حوالے کردیں یہ صورتحال صرف اپوزیشن اراکین کے ساتھ ہی نہیں تھی بلکہ حکومتی اراکین بھی ایک سال انتظار کرنے کے بعد اپنے پوچھے گئے سوال سے مطمعن نہیں تھے سپیکر اپنے اراکین کو تو خاموش کروادیتے تھے مگر اپوزیشن اراکین گول مول جواب ملنے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے جس پر سپیکر نے تین اراکین کے سوالوں کو کمیٹی کے سپرد کردیا میں اوپر گیلری میں بیٹھا یہ سب کچھ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ حکومت نے کیسے شخص کو پارلیمانی سیکریٹری بنا رکھا ہے جسے نہ تو اسکا محکمہ لفٹ کرواتا ہے اور نہ ہی موصوف خود کوئی تیاری کرکے آئیں ہیں اسی دوران اپوزیشن لیڈر نے وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف قرار داد پیش کرنے کی اجازت چاہی تو سپیکر نے رولز کی کتاب سامنے کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ ابھی آپ یہ قرار داد پیش نہیں کرسکتے اس کے لیے پہلے اپنی قرار داد جمع کروائیں پھر 15دن انتظار فرمائیں اسکے بعد آپکو اجازت کا فیصلہ کرینگے جس پر اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ جیسے آپ پہلے رولز کو معطل کرتے ہیں ایسے ہی اب کرکے مجھے اجازت دی جائے مگر ایسا نہ ہوسکا جس پر اپوزیشن اراکین اپنے بنچوں سے اٹھ کر سپیکر کے سامنے آئے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اچھالی اور پھر پرانے نعرے لگانے شروع کردیے دوسری طرف حکومتی خواتین اراکین اسمبلی جو ہاؤس میں شائد اسی نیت سے آتی ہیں کہ کب اپوزیشن کی آواز کو دبانے کے لیے انکی ضرورت پڑ جائے وہ کھڑی ہوئی اور آسمان سر پر اٹھا لیا۔

ان مخالفانہ نعروں میں اس بار دونوں طرف سے ایک ایک نعرے کا اضافہ سننے کو ملا۔اپوزیشن نے جب حسب سابق گو نواز گو کے نعروں کے ساتھ جب پپو پاس ہوگیا کے نعرے لگائے تو حکومتی بنچوں سے چرسی ،چرسی کی سدائیں بلند ہونا شروع ہوئی اور پھر ایوان ایسا مچھلی منڈی بنا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے ایک طرف سے چرسی تو دوسری طرف سے پپو پاس ہوگیا کا ایسا اجلاس جاری رہا کہ سپیکر بھی بعض اوقات منہ پر ہاتھ رکھ کر زیر لب مسکراکر سوائے آرڈ ر،آرڈر اور آرڈر آف دی ہاؤس کے سوا کچھ نہ کر سکے اسی دوران عوامی نمائندوں کے خدمت خلق کے اس عظیم کام کی کسی نے تصویر اتارنا چاہی تو سیکیورٹی اہلکار ایسے جھپٹا جیسے اس نے کسی دہشت گرد کو پکڑ لیا ہو حالانکہ عوامی نمائندے کے ایسے خوبصورت کھیل کو عوام تک پہنچنا چاہیے کہ جنہیں وہ ووٹ دیکر اپنی اور ملک کی قسمت تبدیل کرنے کے لیے اسمبلی میں بھیجتے ہیں وہ سوائے نعرے بازی کے اور کچھ نہیں کرتے ایک دوسرے کے لیڈورں کو معزز ایوان میں ایسے گھسیٹتے ہیں جیسے ان سے بڑا کوئی ملک دشمن ہی نہیں ہے یہی حال اسمبلی سے باہر عام جلسے جلوس میں بھی ہوتا ہے الیکشن سے قبل چھوٹے میاں صاحب اپنے بڑے بھائی کے کبھی بڑے تو کبھی چھوٹے بھائی آصف علی زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کرتے رہے تھے اور ابھی کل ہی کی بات ہے زرداری صاحب نے بھی ایک عدد جلسے سے خطاب فرماتے ہوئے وزیراعظم میاں نواز شریف پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے پختونوں کے پیسے اور حقوق ہضم کرلیے ہیں جسے وہ ہر صورت اگلوائیں گے زرداری کی سیاست بھی عوام نے دیکھ لی پاکستان کے عوام آج تک بجلی کے حوالہ سے انہیں بھولے نہیں اور سندھ کے عوام تو بہت اچھی طرح جان چکے ہیں جہاں ہسپتال کے باہر درخت سے لٹکائی ہوئی ڈرپیں عوام کو تازہ آب وہوا میں صحت بخش کر جناب زرداری حکومت کی طرف سے عوام کو دی جانے والی بنیادی سہولیات کا منہ چڑا رہی ہیں۔

سندھ کے شہری علاقوں بلخصوص کراچی اور حیدر آباد جیسے بڑے شہروں کی عوام آئے دن مسائل میں گھری رہتی ہے پینے کا صاف پانی اور صفائی جیسی دو اہم ضروریات زندگی نہ ہونے کے برابر ہیں بھر پور وسائل ہونے کے باوجود سرکاری مشینری کچھ نہیں کررہی جبکہ بحریہ کے چیئرمین ملک ریاض نے اپنے محدود وسائل سے کراچی کی صفائی کا کام شروع کردیا رہی بات اندرون سندھ کی وہاں زندگی سسک رہی ہے اور موت بھنگڑے ڈال رہی ہے حکمران تماشا دیکھ رہے ہیں اسی طرح کی صورتحال باقی صوبوں میں بھی ہے پنجاب بھی سندھ سے پیچھے نہیں یہاں بھی بلی اور چوہے کا کھیل جاری ہے باقی صوبے کا تو حال نہ پوچھیں صرف لاہور کو ہی دیکھ لیں جہاں سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹر حکومت کی نہیں مانتے اور نہ ہی مریضوں پر توجہ دی جاتی ہے۔

ایک بیڈ پر تین جبکہ بعض اوقات چار مریضوں کو لٹا کر بھی انہیں ایک دوسرے کے دکھ درد کا ساتھی بنا یا جاتا ہے ہمارے ہسپتال کم اور عقوبت خانے زیادہ لگتے ہیں جہاں ڈاکٹر مریض تک آنے سے پرہیز کرتے ہیں اور نیچے والا عملہ اس قدر بگڑ چکا ہے کہ انہیں اگر پیسے نہ دو تو انسان اپنی بے عزتی محسوس کرتا ہے لاہور کے گنگا رام ہسپتال کی ایمرجنسی کے ڈیلیوری روم میں ہر پیدا ہونے والے بچے کے ماں باپ کے ناک میں دم اس وقت تک کیے رکھتے ہیں جب تک وہ بیچارہ اپنے کپڑے بھی اتار کرانکے حوالے نہیں کردیتا اسی طرح ہمارے پولیس والے جوان ہیں جن کی کمال مہربانی سے نشہ اب مخصوص مقامات سے سے نکل کر گلی محلوں اور ب کالجز اور یونیورسٹی کی سطح تک پہنچ چکا ہے بلوچستان کے لوگوں کے حالات بھی سدھرنے کی بجائے دن بدن زبوں حالی کی طرف گامزن ہیں اور کے پی کے میں رہنے والے ہمارے پٹھان بھائی دہشت گردوں کے ساتھ اور سہولت کار بن رہے ہیں رہ گئی ہماری اسمبلیاں وہاں اب قانون سازی کی جگہ لڑائی جھگڑے نے لے لی ہے کبھی گو نواز گو کے نعرے لگ رہے ہوتے ہیں تو کبھی رو عمران رو کے نعروں سے ایوان گونج رہا ہوتا ہے۔

اپنے لیڈروں کے حق میں اور دوسروں کے خلاف قرار دایں پاس کررہے ہیں جنہوں نے ٹکٹ دیے انکی خاطر لہو بھی حاضر کررکھا ہے اور جن کے ووٹ سے وہ اس قابل ہوئے کہ اسمبلی میں پہنچے انکا خون چوس رہے ہیں ایک بات واضح ہے کہ اس ملک میں چور کو ووٹ دینے والا چور کو ہی ووٹ دیگا اور ڈاکو کا سپورٹر بھی اسی کی ہی تعریفیں کریگا کیونکہ ہمارے سیاستدانوں نے ہمیں ذہنی طور پر بالغ ہی نہیں ہونے دیا آج بھی بھٹو کے جیالے ،نواز شریف کے متوالے اور عمران خان کے کھلاڑی اپنی لاکھ مشکلات کے باوجود انہیں ہی ووٹ دینگے الیکشن میں حصہ لینے والے افراد کو نہیں دیکھیں گے بلکہ عوام کی مشکلات میں اضافہ کرنے والوں کو ووٹ دینگے جو پھر اپنے لیڈروں کے لیے لہو حاضر کرنے کے لیے تیار رہیں گے کیونکہ انکی جیت تو نواز شریف ،زرداری اور عمران خان کی مرہون منت ہے اسی لیے تو پھر ہماری اسمبلیوں میں کبھی پپو پاس ہوگیا تو کبھی چرسی کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے جیسے لوگوں کو ووٹ دیکر اسمبلیوں میں بھیجیں تاکہ ہم انہیں پکڑ سکیں اور وہ ہم سے بھاگ نہ سکیں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
03004821200