پنجاب کی ثقافت کے رنگ

Handi

Handi

تحریر : عبدالجبار خان دریشک
راجن پور میں مختلف ثقافتوں کے پائے جانے کی وجہ سے یہاں کی خواتین کے ہاتھ سے بنی گھریلو ضروریات کی اشیاء ہیں جو انتہائی خوبصورت اور دیدزیب ہو تی ہیں جو گھر وں میں روزمرہ کے استعمال میں لائی جاتی ہیں جو یہاں کی خواتین گھر میں تیار کرتی ہیں یہ خواتین بہت ہی محنتی اور باہمت ہو تی ہیں جو اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو نبھاتی ہیں بلکہ مردوں کے ساتھ مال مویشوں کے چارے کھیتوں کی بیجائی میں بھی شامل ہوتی ہیں ان خواتین کو جب ان تمام کٹھن محنت طلب کاموں سے فرصت ملتی ہے تو یہ بجائے آرام کر نے کے گھروں اپنی ضرورت یا پھر پیسوں کے حصول کے لئے چھوٹی چھوٹی خوبصورت اشیاء تیار کرتی ہیں جن میں انتہائی محنت اور نفاست وسلیقے کی جھلک نظر آتی ہے یہ خواتین مختلف قسم کی سلائی کڑائی کشیدہ کاری گیندی نالے اور خاص کر کھجور کی نا کارہ چھڑیوں اور پتیوں کو کارآمد بنا کر ان سے برتین پنکھے اوردیگر استعمال کی اشیاء تیار کرتی ہیں۔

کھجور کے پتوں کو مقامی زبا ن بھو ترے کہا جاتا ہے جس سے روٹی رکھنے والی چھابی جسے مقامی زبان میں چھبی کہا جاتا ہے اور بڑے چھبے مو ڑے مخباجسے (روٹی رکھنے والا ہاٹ پاٹ )سندھڑے (اس میں کپڑے چادریں رکھے جاتے ہیں)پنکھے چٹا ئی چار پا ئی کا وان وغیرہ شامل ہے جب کھجور کے درخت پھل سے خالی ہو جا تے ہیں تو ان کی صفائی کی غرض سے ان کی چھدائی کی جاتی ہے اور کھجور کی چھڑیوں کو کاٹ دیا جاتا ہے ان چھڑیوں کو ضائع نہیں کیا جاتا بلکہ ان کو کچھ دن کے لئے دوھوپ میں سوکھایا جا تا ہے سوکھا نے کے بعد یہ خواتین چھڑیوں سے بھوترے الگ کر تی ہیں اور ان بھو تروں کو بھی ایک سے تین دن تک خشک کر نے بعد باقاعد ہ استعمال میں لایا جاتا ہے جب ان سے کوئی چیز تیار کی جاتی ہے تو ان بھو تر وں کو کچھ دیر پا نی میں بھگویا جاتا ہے تا کہ ان میں نرمی پید ا ہو خشک ہو نے کی وجہ سے یہ ٹو ٹ سکتے ہیں اس کے ساتھ مختلف ڈائزین بنا نے کے لئے ان کو رنگ دار پا نی میں بھیگا کر رنگ چڑھایا جا تا ہے کھجور کے بھو تروں کی دو اقسام ہوتی ہیں۔

Handi

Handi

ایک مکمل پکے اور دوسرے کچے ‘پکے مکمل سبز اور کچے آف وائٹ رنگ کے ہو تے ہیں پکے بھوتروں سے پنکھے چٹا ئی اور چارپا ئی کا وان تیار ہوتا ہے اب کھجور کے کچے بھوتروں کو نہا یت ہی خیال سے کا ٹا جا تا ہے اگر غلطی سے کھجو ر کے گاچے پر کلہاڑی لگ گئی اور اس پر ضرب لگ گئی تو اگلے سال پیداوار متاثر ہو سکتی ہے ان کچے بھوتروں سے چھبی چھبے سندھڑے موڑے اور دوسری خوبصورت اشیاء بنا نے میں استعمال ہو تے ہیں دیہات میں ان کا استعمال اب بھی کا فی حد تک ہے پر جدید دور کی وجہ سے لوگ کم محنت میں ریڈی میٹ چیزکا استعمال کر نے لگے ہیں ایسی چیزیں بہت کم مارکیٹ میں فر وخت کے لئے لا ئی جا تی ہیں ان کو بنا نے وا لی خواتین یہ برتن اپنے گھر وں میں استعمال کر تی ہیں یاپھر اپنی بچیوں کو جہیز یا بھر رشتہ داروں کو با طور تحفہ دیا جا تا ہے ان میں کچھ چیزوں کو خاص محنت اور زیادہ سے زیادہ خوبصورت بنایا جاتا ہے جو زیادہ خوبصورت چیز ہو گی وہ کسی خاص مہمان کی آمد پر اس کی عزت تقریم کی خاطر استعمال میں لا ئی جا تی ہیں ۔عام اور سادہ ڈائزین کی یہ چیزین اپنے ذاتی استعمال میں لا ئی جاتی ہے۔

اب ان برتنوں کے انتخاب سلیقہ میں مہمان نواز کی جھلک نظر آتی ہے جو کہ یہاں کی ثقافت کا حصہ ہے خواتین یہ سامان کئی کئی دن ان پر لگا کر تیار کر تی ہیں عموماً ایک چھبی دو سے تین دن میں اگر وقت زیادہ ہو تو ایک دن میں بھی تیار ہو جا تی ہے مو ڑا چار سے چھے دن چٹائی ایک ہفتے سے زیادہ اور چار پائی کا وان کئی کئی دن کھا جاتا ہے یہ سامان بازار میں مخصوص دوکانوں پر فروخت بھی ہوتا ہیں اور خرید ہ بھی جا تا ہے جن دوکانوں پر چارپائیوں کا وان رسے بانس وغیرہ ملتے ہیں کچھ خواتین شہر جاتے ہو ئے یہ سامان اپنے ساتھ لے جاتی ہیں پہلے ان کی کو شش ہو تی ہے کسی گھر میں فروخت ہو جا ئے با حالات مجبوری کسی دوکاندار کے پاس فروخت کر تی ہیں۔

Handi

Handi

دوکاندار ان کو زیادہ قیمت نہیں دیتے جس کی وجہ سے یہ گھروں میں فروخت کرنے کو ترجیع دیتی ہیں لیکن زیادہ تعداد میں سامان ذاتی اور تحفے کے لئے بنا یا جا تا ہے اس کے علاوہ کسی کے ساتھ حصہ داری پر بھی بنا یا جا تا ہے کو ئی گھر کی خاتون دوسری خاتون کو سامان بھوترے مہیا کر تی ہے دوسری اس سے سامان تیار کر تی ہے جس کو آدھا آدھا کیا جاتا ہے دواشیاء تیار ہو ئی ہیں تو ایک ایک کے حساب سے رکھ لیں گی کچھ اجرت پر بھی تیار بھی کرتی ہیں۔

فی نگ کے حساب سے اجرت طے کر لی جا تی ہے ہاتھ سے بنا ئے گئے پنکھے جو کھجور کے بھوتروں سے تیار ہو تے ہیں وہ تو بازار میں فروخت ہو تے ہیں جبکہ خاص قسم کے تیلیوں والے پنکھے ذاتی اور تحفے کے لئے بنائے یا بنو ائے جا تے ہیں ان تیلیوں پر نہایت خوبصورتی سے رنگ دار دھاگا چڑھایا جا تا ہے اس کے کنا روں پر گہرے رنگ کے کپڑے کی جھالر اور ستارے شیشے کے ٹکرے لگا کر مزید خوبصورت بنا یا جا تا ہے راجن پور کے دیہاتوں میں اکثر گھر وں میں خواتین یہ اشیاء تیار کر تی ہیں جو ان کی محنت اور عظمت کو نمایا کر تا ہے اس کام میں محنت زیادہ اور اجرت بہت کم ہے جس کی بنیادی وجہ اس سامان کی مارکیٹنگ کا نہ ہو نا اور اس صنعت کی طرف توجہ کا نا ہو نا ہے اس کام میں خواتین کی مز ید تربیت کی جائے اور ان کے سامان کی خرید کے لئے حکومتی سطح پر حوصلہ افزائی کی جا ئے تو یہ ایک منا فع بخش انڈسٹری کے ساتھ ان خواتین کے روزگار کا بہترین باعزت ذریعہ بن سکتا ہے جو خواتین اپنے گھر وں میں رہتے ہو ئے کما سکتی ہیں۔

Abdul jabbar khan

Abdul jabbar khan

تحریر : عبدالجبار خان دریشک